Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 127
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَ قَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَكَ وَ اٰلِهَتَكَ١ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ١ۚ وَ اِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ
وَقَالَ
: اور بولے
الْمَلَاُ
: سردار
مِنْ
: سے (کے)
قَوْمِ
: قوم
فِرْعَوْنَ
: فرعون
اَتَذَرُ
: کیا تو چھوڑ رہا ہے
مُوْسٰي
: موسیٰ
وَقَوْمَهٗ
: اور اس کی قوم
لِيُفْسِدُوْا
: تاکہ وہ فساد کریں
فِي
: میں
الْاَرْضِ
: زمین
وَيَذَرَكَ
: اور وہ چھوڑ دے تجھے
وَاٰلِهَتَكَ
: اور تیرے معبود
قَالَ
: اس نے کہا
سَنُقَتِّلُ
: ہم عنقریب قتل کر ڈالیں گے
اَبْنَآءَهُمْ
: ان کے بیٹے
وَنَسْتَحْيٖ
: اور زندہ چھوڑ دینگے
نِسَآءَهُمْ
: ان کی عورتیں (بیٹیاں)
وَاِنَّا
: اور ہم
فَوْقَهُمْ
: ان پر
قٰهِرُوْنَ
: زور آور (جمع)
قوم فرعون کے سرداروں نے فرعون سے کہا کیا تو اسی طرح موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑے رکھے گا کہ وہ ملک میں بدامنی پھیلائیں اور تجھ کو اور تیری مورتوں کو ٹھکرائیں اس نے کہا کہ ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھیں گے اور ہم ان پر پوری طرح حاوی ہیں۔
وَقَا لَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَزُ مُوْسٰی وَقَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰ لِھَتَکَ ط قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآئَھُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآئَھُمْ ج وَ اِنَّا فَوْقَہُمْ قٰھِرُوْنَ ۔ (الاعراف : 127) ” قوم فرعون کے سرداروں نے فرعون سے کہا کیا تو اسی طرح موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑے رکھے گا کہ وہ ملک میں بدامنی پھیلائیں اور تجھ کو اور تیری مورتوں کو ٹھکرائیں اس نے کہا کہ ہم ان کے بیٹوں کو قتل کریں گے اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھیں گے اور ہم ان پر پوری طرح حاوی ہیں “۔ شکست کے بعد عمائدینِ سلطنت کی بوکھلاہٹ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کی کامیابی کے بعد فرعون کے سرداروں پر بری طرح بوکھلاہٹ طاری تھی انھیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر اتنی بڑی ناکامی اور رسوائی کے بعد ہم کس طرح حالات کو سنبھالیں اگر ہم خاموش رہتے ہیں تو حالات اور بگڑ جائیں گے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت لوگوں میں اپنا اثر پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور اگر ہم کوئی پکڑ دھکڑ شروع کرتے ہیں تو سب لوگ یہ سمجھیں گے کہ ہم اپنی ناکامی کا انتقام لے رہے ہیں اور یہ کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ بالآخر انتقام کا جوش ان پر غالب آیا تو انھوں نے فرعون سے مطالبہ کیا کہ آپ موسیٰ اور اس کی قوم کے بارے میں کچھ کرنے کا حکم دیجئے۔ اگر آپ نے اسی طرح ان کو آزاد چھوڑے رکھا تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ موسیٰ اور اس کی قوم بنی اسرائیل تمہاری گرفت سے نکل جائیں گے اور وہ زمین میں فساد پھیلاتے پھریں گے۔ فساد سے ان کی مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے احکام کی پرواہ نہیں کریں گے۔ نہ تمہارا احترام کریں گے اور نہ تمہارے بتوں کے سامنے سر جھکائیں گے۔ عام لوگوں کو یہ تأثر پیدا ہوجائے گا کہ فرعون کی حکومت اپنی گرفت کھو چکی ہے اب ہمیں مستقبل کی قیادت کے طور پر موسیٰ کی طرف دیکھنا چاہیے۔ اس لیے اس بات کی فوری ضرورت ہے کہ موسیٰ اور اس کی قوم کو قابو میں لایا جائے اور یہ جو ڈھیل ان کو دے رکھی ہے اسے ختم کیا جائے۔ فرعون نے اس کے جواب میں کہا کہ تمہیں فکر مند نہیں ہونا چاہیے۔ ہماری حکومت پوری طرح مستحکم ہے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ موسیٰ اور بنی اسرائیل اس ملک میں بغاوت کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ البتہ اب ہم ان پابندیوں میں اضافہ کیے دیتے ہیں جو پہلے عدم توجہ کے باعث کسی حد تک ناکامی کا شکار ہوئیں۔ یہ جو ہماری پرانی پالیسی تھی کہ ہم بنی اسرائیل کے بچوں میں لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے اور ذکور کو قتل کردیتے تھے یہ دائیوں کی لاپرواہی کے باعث ناکام ہوگئی کیونکہ دائیاں عموماً بنی اسرائیل ہی سے تعلق رکھتی تھیں۔ بنی اسرائیل کے گھرانوں سے ان کا ہمدردی کا تعلق ایک فطری بات تھی جب فرعون کی حکومت نے ان دائیوں کو حکم دیا کہ جس گھر میں بھی لڑکا پیدا ہو اس کا گلا گھونٹ دیا جائے تو انھوں نے اس حکم کو نافذ کرنے میں بہت کچھ تأمل کیا جہاں کہیں بچہ پیدا ہوتا وہ گھر والوں سے مل کر اسے چھپانے میں کامیاب ہوجاتیں اور پولیس کو اس کا سراغ نہ لگنے دیتیں اس طرح یہ پالیسی تقریباً ناکام ہوگئی۔ اب حق و باطل کے معرکے میں ناکامی کے بعد فرعون نے ازسرنو حکم جاری کیا کہ کسی لڑکے کو زندہ نہ چھوڑا جائے لیکن اس حکم کی بجاآوری کی ذمہ داری دائیوں پر نہیں بلکہ عام لوگوں پر ڈالی کہ جہاں کہیں بھی ان کے علم میں یہ بات آئے کہ اسرائیلیوں کے گھر میں کوئی بچہ پیدا ہوا ہے تو وہ اسے پکڑ کر دریا میں پھینک دیں تو فرعون نے اپنے سرداروں کو اطمینان دلایا کہ اس سزا کے پوری طرح نافذ ہوجانے کے بعد چونکہ کوئی بچہ زندہ نہیں رہے گا تو بنی اسرائیل میں یہ طاقت کہاں سے آئے گی کہ وہ بغاوت کردیں اور مزیدتاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کے نفاذ کے ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا گیا کہ بنی اسرائیل کی بیگار میں سختی کی جائے۔ بیگار کے وقت میں اضافہ کردیا جائے تاکہ وہ لمبی مشقت اور اذیت کے بعد کسی اور بات کے سوچنے کے قابل ہی نہ رہیں۔ اس طرح سے ایک طرف ان کی نسل کشی کا سامان کیا گیا تاکہ آئندہ نسل وجود میں نہ آسکے اور جو زندہ نسل موجود تھی ان کو بیگار کی شدت میں کس کر اس قابل نہ چھوڑا جائے کہ وہ کسی بھی کام کے بارے میں سوچ سکیں یا اس کا ارادہ کرسکیں۔ اس آیت کریمہ میں سرداروں نے فرعون سے یہ کہا کہ اگر آپ نے موسیٰ اور اس کی قوم کو یوں چھوڑے رکھا تو وہ زمین میں فساد پھیلائیں گے اور تجھے بھی چھوڑ دیں گے اور تیرے اٰ لِھَہ یعنی تیرے معبودوں کو بھی چھوڑ دیں گے۔ یہاں اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرعون تو اپنے آپ کو سب سے بڑا رب قرار دیتا تھا اور اسی لیے اپنی قوم سے اپنی پوجا کرواتا تھا جو شخص اپنے آپ کو رب اعلیٰ کہتا ہو وہ دوسرے کسی کو اپنا معبود کیسے مان سکتا ہے۔ اس لیے یہاں قوم کا یہ کہنا کہ یہ لوگ تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں گے آخر اس کا کیا مفہوم ہے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ فرعون اپنے زعم کے مطابق اپنے آپ کو مصریوں کے سب سے بڑے دیوتا یعنی سورج کا اوتار سمجھتا تھا اس طرح اس کی حیثیت اوتار بادشاہ کی تھی یعنی وہ بیک وقت مصریوں کا بادشاہ بھی تھا اور ان کے سب سے بڑے دیوتا کا مظہر اور اوتار ہونے کے سبب سے ان کا رب اعلیٰ بھی تھا اس نے اپنے بیشمار مجسمے (اسٹیچو) اور بت بنوا کر اپنی مملکت میں جابجا نصب کروا دیئے تھے اور رعایا کو حکم تھا کہ وہ ان کے درشن کے لیے جائیں اور ان کے سامنے ڈنڈوت بجا لائیں۔ اس طرح بادشاہ کو بیک وقت رعایا پر خدائی اور شاہی دونوں کے اختیارات حاصل تھے۔ انہی مجسموں اور بتوں کی طرف اشارہ کر کے قوم فرعون کے سردار فرعون سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ نے بنی اسرائیل کو ڈھیل دیئے رکھی تو یہ لوگ آپ کے مجسموں کا احترام کرنا چھوڑ دیں گے اور آپ کی عظمت ان کے دلوں سے نکل جائے گی۔ اگر آپ کو اپنی عظمت کا احساس ہے اور یقینا ہوگا کیونکہ اسی احساس پر آپ کی حکومت قائم ہے تو پھر آپ بنی اسرائیل پر اپنی گرفت میں شدت پیدا کیجیے اور انھیں اٹھنے کا موقع نہ دیجئے۔ جب ان باتوں کی خبر بنی اسرائیل تک پہنچی تو انھیں یقینا بہت فکر ہوئی کہ پہلے ہی ہماری زندگی جس اذیت سے گزر رہی ہے وہ بھی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے یہ فرعون کے نئے احکام تو ہمیں زندہ درگور کردیں گے تو انھوں نے یقینا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شکایت کی ہوگی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان مصیبتوں کا سامنا کرنا کے لیے اللہ کے حکم سے جو نسخہ تجویز کیا اس کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں ہے۔ ارشاد فرمایا : قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَاصْبِرُوْا ج اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ قفلا یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ ط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ۔ قَالُوْآ اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْ تِیَنَا وَمِنْ م بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ط قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَ یَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ۔ (الاعراف : 128، 129) ” موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد چاہو اور ثابت قدم رہو زمین اللہ کی ہے وہ جس کو اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے اس کو وارث بناتا ہے اور انجام کار کی کامیابی خدا سے ڈرنے والوں ہی کے لیے ہے وہ بولے ہم تو تمہارے آنے سے پہلے بھی ستائے گئے اور تمہارے آنے کے بعد بھی اس نے کہا توقع ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو پامال کرے گا اور تم کو ملک کا وارث بنائے گا کہ دیکھے تم کیا روش اختیار کرتے ہو “۔ فرعون کی اذیتوں پر اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے یہ نہیں کہا کہ میں تمہارے پاس خوش عیشیوں ‘ خوش حالیوں اور آرام طلبیوں کا سامان لے کر آیا ہوں اور میرے ساتھ چل کر تمہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوگی بلکہ ان کو یہ تصور دیا کہ اللہ کے راستے میں چلنے والوں کو ہمیشہ مخالفتوں اور مصیبتوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ تم اگر غلامی سے آزادی کا سفر کرنا چاہتے ہو اور فرعون کی ربوبیت چھوڑ کر اللہ کی ربوبیت کے سائے میں آنا چاہتے ہو تو یہ سفر پھولوں کی سیج پر نہیں ہوگا اس راستے میں تو قدم قدم پر دشواریاں ہوں گی۔ مخالفتوں کا سامنا ہوگا اور فرعون اپنی قہرمانی طاقتوں سے تم پر ہر ممکن مصیبت لائے گا۔ تمہیں اس راستے پر چلتے ہوئے استقامت کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ یہ مقابلہ آسان نہیں۔ حکومتوں سے ٹکرانا اور مظالم برداشت کرنا بہت مشکل کام ہے ہوسکتا ہے تمہارے حوصلے جواب دینے لگیں اس لیے میں تمہارے لیے یہ نسخہ تجویز کر رہا ہوں کہ تم اس راستے میں چلنے کے لیے اللہ ہی سے مدد چاہو اور قرآن کریم میں کئی اور جگہ اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ نماز میں اللہ سے مدد مانگو۔ نماز میں اللہ سے مدد دو طریقوں سے مانگی جاتی ہے ایک تو یہ کہ نماز کے آغاز سے لے کر اس کے اختتام تک حتیٰ کہ اس کے لیے اذان میں بھی مسلسل اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا دنیا میں کبریائی کسی کو زیب نہیں دیتی۔ وہی ذات کبریا ہے جو ہر طرح کی عظمتوں کی مالک ہے۔ اس کی قدرتیں بےپناہ ہیں ‘ اس کی قوتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں وہی تخت و تاج کا مالک ہے جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ اللہ کی کبریائی کا تصور اور اس کی قدرتوں پر اعتماد جیسے جیسے پختہ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے انسانی حکومتیں ‘ انسانی بڑائیاں نظروں میں ہیچ ہونے لگتی ہیں۔ آدمی جب اس بات کا یقین کرلیتا ہے کہ ہر چیز کا مالک اللہ ہے تو بڑے سے بڑا صاحب جبروت بھی پتلیوں سے زیادہ حیثیت کا مالک دکھائی نہیں دیتا۔ جب کسی قوم کی نگاہوں میں اس طرح طاقت و قوت اور اقتدار کے پیمانے بدل جاتے ہیں اور زاویہ نگاہ بالکل تبدیل ہوجاتا ہے تو پھر اس کے لیے بڑی سے بڑی قوت سے ٹکرانا اور انتہائی نامساعد حالات میں بھی اپنا سفر جاری رکھنا آسان ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ صبر سے مدد حاصل کرو۔ صبر دو چیزوں کے مجموعے کا نام ہے ایک تو ہے اپنے مؤقف اور اپنے نقطہ نگاہ کی صداقت پر مکمل یقین اور دوسرا ہے اس راستے میں آنے والی مخالفتوں ‘ مزاحمتوں اور اذیتوں پر استقامت۔ یہ دو چیزیں انسان کے اندر اس مضبوط شخصیت کو جنم دیتی ہیں جو کسی بھی مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے کبھی نہیں گھبراتی۔ خطرناک سے خطرناک حالات میں بھی جب اسے یقین ہوتا ہے کہ میں سچائی پر ہوں تو پھر اسے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ سچائی کی عظمت کے لیے مجھے جان دینا پڑے گی۔ وہ ہرحال میں استقامت کا ایک ایسا پیکر بن جاتا ہے جسے کسی طرح بھی ہلانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل سے یہی کہا گیا ہے کہ تم اللہ سے مدد مانگو اور اس راستے میں آنے والی مشکلات پر صبر کرو یعنی استقامت اور اللہ کی توفیق تمہارے لیے مشکل سے مشکل راستہ آسان کر دے گی۔ رہی یہ بات کہ فرعون یہ کہتا ہے کہ ہم بہرصورت ان پر غالب ہیں یہ ملک اور یہ حکومت ہم سے کبھی چھینے نہیں جاسکتے تو اس کا یہ کہنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ زمین اللہ کی ہے وہی اس کا مالک ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے لیکن انجام کے اعتبار سے اس کا یہ فیصلہ ہے کہ ہمیشہ متقی ہی سرافراز ہوتے ہیں۔ اللہ سے ڈرنے والے لوگ جو اللہ کی زمین پر اللہ کی حکومت کو نافذ کرنا چاہتے ہیں ان کی زندگی کا ہر لمحہ اسی کی اطاعت میں گزرتا ہے اور وہ بندوں میں بھی اسی کی اطاعت دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھیں قرآن کریم متقی کہتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بالآخر زمین کے وارث بنائے جاتے ہیں۔ جب تک وہ زمین کو فساد سے بچائے رکھتے ہیں اور اللہ کی اطاعت خود بھی کرتے ہیں اور اہل زمین سے بھی اللہ کی اطاعت کرواتے ہیں۔ اللہ ان کی سلطنت کو قائم رکھتا ہے لیکن جب وہ اللہ کے عہد سے برگشتہ ہوجاتے ہیں تو پھر اللہ دوسرے لوگوں کو لے آتا ہے۔ رسولوں کے واسطے سے ہمیشہ اللہ کی اس سنت پر عمل ہوتا رہا ہے کہ بگڑی ہوئی قوموں کی طرف اللہ کے رسول اصلاح کی دعوت لے کر آتے ہیں وہ قوم اگر اسے ماننے سے انکار کردیتی ہے تو انھیں مٹا دیا جاتا ہے اور وہ سرزمین دوسرے لوگوں کے حوالے کردی جاتی ہے جو ان سے بہتر ہوتے ہیں۔ بنی اسرائیل کو یہ بات سمجھائی جا رہی ہے کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم نہایت صبر سے اللہ کے دین کی دعوت دیتے رہو اور خود بھی اس پر چلتے رہو ایک وقت آئے گا جب تمہارے مخالفین کو مٹا دیا جائے گا اور تمہیں زمین کی حکومت دے دی جائے گی۔ بنی اسرائیل چونکہ غلامی کے مارے ہوئے لوگ تھے غلامی نے اجتماعی سیرت و کردار کی ہر خوبی سے انھیں تہی دامن کردیا تھا وہ ان باتوں کی قدر و قیمت کو کیا سمجھتے ؟ اس لیے وہ کہنے لگے کہ اے موسیٰ ! تیرے آنے سے پہلے بھی ہم ستائے گئے اور تیرے آنے کے بعد بھی نہ صرف کہ ہم ستائے جا رہے ہیں بلکہ ہماری تکلیفوں میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوگیا ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ وقت دور نہیں جب اللہ تعالیٰ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو تباہ کر دے گا اور تمہیں خلافت ارضی سے نوازے گا لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تم نہایت اخلاص سے اللہ کی بندگی کا حق ادا کرتے رہو لیکن یہ یاد رکھو کہ جب تمہیں اللہ تعالیٰ خلافت ارضی سے نوازے گا آج جس طرح وہ دوسروں کو دیکھ رہا ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں پھر وہ تمہیں دیکھے گا کہ تم اپنی ذمہ داریاں کس طرح ادا کر رہے ہو یہ دنیا تو دارالعمل اور دارالامتحان ہے یہاں ہر ایک کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ انہی کے حوالے سے ہر شخص اور ہر قوم کو نوازا جاتا ہے یا سزا دی جاتی ہے۔
Top