Asrar-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 128
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰى وَ قَوْمَهٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَكَ وَ اٰلِهَتَكَ١ؕ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَهُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآءَهُمْ١ۚ وَ اِنَّا فَوْقَهُمْ قٰهِرُوْنَ
وَقَالَ : اور بولے الْمَلَاُ : سردار مِنْ : سے (کے) قَوْمِ : قوم فِرْعَوْنَ : فرعون اَتَذَرُ : کیا تو چھوڑ رہا ہے مُوْسٰي : موسیٰ وَقَوْمَهٗ : اور اس کی قوم لِيُفْسِدُوْا : تاکہ وہ فساد کریں فِي : میں الْاَرْضِ : زمین وَيَذَرَكَ : اور وہ چھوڑ دے تجھے وَاٰلِهَتَكَ : اور تیرے معبود قَالَ : اس نے کہا سَنُقَتِّلُ : ہم عنقریب قتل کر ڈالیں گے اَبْنَآءَهُمْ : ان کے بیٹے وَنَسْتَحْيٖ : اور زندہ چھوڑ دینگے نِسَآءَهُمْ : ان کی عورتیں (بیٹیاں) وَاِنَّا : اور ہم فَوْقَهُمْ : ان پر قٰهِرُوْنَ : زور آور (جمع)
اور کہا قوم فرعون کے سرداروں نے (فرعون سے) کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو اسی طرح چھوڑے رکھیں گے کہ وہ زمین کے اندر فساد مچائیں اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ دیں ! اس نے کہا ہم عنقریب قتل کریں گے ان کے بیٹوں کو اور زندہ رہنے دیں گے ان کی بیٹیوں کو اور یقیناً ہم ان پر پوری طرح غالب ہیں
آیت 127 وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَقَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَیَذَرَکَ وَاٰلِہَتَکَ ط جس نئے نظریے کا پرچار وہ کر رہے ہیں اگر وہ لوگوں میں مقبول ہوتا گیا اور اس نظریے پر لوگ اکٹھے اور منظم ہوگئے تو ہمارے خلاف بغاوت پھوٹ پڑے گی۔ اس طرح ملک میں فساد پھیلنے کا سخت اندیشہ ہے۔ یہاں پہ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قوم فرعون کے معبود بھی تھے۔ ان کا سب سے بڑا الٰہ تو سورج تھا۔ لہٰذا معاملہ یہ نہیں تھا کہ وہ خدا صرف فرعون کو مانتے تھے۔ فرعون کی خدائی سیاسی تھی ‘ اس کا دعویٰ تھا کہ حکومت میری ہے ‘ اقتدارو اختیار sovereignty کا مالک میں ہوں۔ نمرود کی خدائی کا دعویٰ بھی اسی طرح کا تھا۔ باقی پوجا پاٹ کے لیے کچھ معبود فرعون اور اس کی قوم نے بھی بنا رکھے تھے جن کے چھوٹ جانے کا انہیں خدشہ تھا۔ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآءَ ہُمْ وَنَسْتَحْیٖ نِسَآءَ ہُمْ ج یہ آزمائش ان پر ایک دفعہ پہلے بھی آچکی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے قبل جو فرعون برسر اقتدار تھا اس نے ایک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر میں اس کے نجومیوں نے اسے بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچے کی پیدائش ہونے والی ہے جو بڑا ہو کر آپ کی حکومت ختم کر دے گا۔ چناچہ اس خدشے کے پیش نظر فرعون نے حکم دیا تھا کہ بنی اسرائیل کے ہاں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جائے اور صرف لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔ تقریباً چالیس ‘ پینتالیس سال بعد اب پھر یہ مرحلہ آگیا کہ جب موجودہ فرعون کے سرداروں نے اس کی توجہ اس طرف دلائی کہ جسے تم مشت غبار سمجھ رہے ہو وہ بڑھتے بڑھتے اگر طوفان بن گیا تو پھر کیا کرو گے ؟ اگر اس حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو تمہارے خلاف ایک تحریک کی شکل میں منظم کرلیا تو پھر ان کو دبانا مشکل ہوجائے گا۔ لہٰذا وہ چاہتے تھے کہ nip the evil in the bud کے اصول کے تحت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا جائے ‘ لیکن فرعون کے دل میں اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے محبت ڈالی ہوئی تھی۔ کیونکہ یہ وہی فرعون تھا جس کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھائیوں کا سا رشتہ تھا ‘ جس کی وجہ سے اس کے دل میں آپ علیہ السلام کے لیے طبعی محبت ابھی بھی موجود تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے آپ علیہ السلام کو قتل کرنے کے بارے میں نہیں سوچا ‘ بلکہ اس کے بجائے اس نے بنی اسرائیل کو دبانے کے لیے پھر سے اپنے باپ کا پرانا حکم نافذ کرانے کا عندیہ دے دیا کہ ہم ان کے لڑکوں کو قتل کرتے رہیں گے تاکہ موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قوم سے اجتماعی افرادی قوت مہّیا نہ ہو سکے۔ وَاِنَّا فَوْقَہُمْ قٰہِرُوْنَ ۔ گویا اب درباریوں اور امراء کا حوصلہ بڑھانے کے انداز میں کہا جا رہا ہے کہ تم کیوں گھبراتے ہو ‘ ہم پوری طرح ان پر چھائے ہوئے ہیں ‘ یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔
Top