Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 82
وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ١ۚ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ
وَمَا : اور نہ كَانَ : تھا جَوَابَ : جواب قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَخْرِجُوْهُمْ : انہیں نکال دو مِّنْ : سے قَرْيَتِكُمْ : اپنی بستی اِنَّهُمْ : بیشک اُنَاسٌ : یہ لوگ يَّتَطَهَّرُوْنَ : پاکیزگی چاہتے ہیں
تو ان سے اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا بولے سو یہ بولے کہ لوط اور ان کے گھر والوں کو گاؤں سے نکال دو کہ یہ لوگ پاک بننا چاہتے ہیں
قوم کا جواب ‘ خیر کو عیب کہا : آیت 82: وَمَاکَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْھُمْ مِّنْ قَرْیَتِکُمْ (ان کی قوم سے کوئی جواب نہ بن پڑا ٗ سوائے اس کے کہ آپس میں کہنے لگے کہ ان لوگوں کو تم اپنی بستی سے نکال دو ) یعنی لوط اور جو لوگ ان پر ایمان لائے تھے۔ مطلب یہ ہوا کہ لوط ( علیہ السلام) نے ان سے انکار فاحشہ کے سلسلے میں جو جواب مانگا اس کا انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جس شرارت کی جڑ کے متعلق لوط نے ان کی نشاندہی کی۔ کہ وہ صرف لوگ ہیں۔ انہوں نے انکا کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ ایسی چیز پیش کی جو ان کے کلام سے بالکل متعلق نہ تھی۔ انہوں نے حکم دیا کہ لوط اور ان پر ایمان لانے والوں کو بستی سے نکال دو ۔ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ (یہ لوگ بڑے پاک صاف بنتے ہیں) یہ طہارت و پاکیزگی کے دعویدار ہیں اور ایسی بات کے مدعی ہیں کہ ہم خبیث فعل کے مرتکب ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کی بات کو بطور عیب ذکر کیا۔ جو قابل مدح تھی۔
Top