Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 4
مِنْ قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ اَنْزَلَ الْفُرْقَانَ١ؕ۬ اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ ذُو انْتِقَامٍ
مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے ھُدًى : ہدایت لِّلنَّاسِ : لوگوں کے لیے وَاَنْزَلَ : اور اتارا الْفُرْقَانَ : فرقان اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جنہوں نے كَفَرُوْا : انکار کیا بِاٰيٰتِ : آیتوں سے اللّٰهِ : اللہ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب شَدِيْدٌ : سخت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : زبردست ذُو انْتِقَامٍ : بدلہ لینے والا
پہلے توراۃ وانجیل بھی لوگوں کی ہدایت ہی کیلئے نازل کی گئی تھیں ، یہ کتاب حق و باطل میں امتیاز کرنے والی نازل فرمائی ہے لیکن جو لوگ اللہ کی آیتوں سے انکار کرتے ہیں یقینا انہیں سخت عذاب ملنے والا ہے اور اللہ سب پر غالب اور مجرموں کو سزا دینے والا ہے
قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جو ” الفرقان “ کہلانے کی مصداق ہے : 9: قرآن کریم الفرقان کیسے ؟ ” الفرقان “ یعنی نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والی قوت قرآن کریم ہی ہے۔ ” فرقان “ دراصل حق و باطل میں فرق کو کہتے ہیں جیسے امام راغب نے المفردات میں بیان کیا ہے کہ قرآن کریم میں جنگ بدر کو بھی فرقان کہا ہے۔ ” یَوْمَ الْفُرْقَانِ “ (الانفال 8 : 41) مؤمن کو جو نور حق و باطل میں فرق کرنے کا دیا جاتا ہے اسے بھی فرقان ہی کہا : ” اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمُ فُرّقَانًا “ (الانفال 8 : 29 ) قرآن کریم کے ناموں میں سے ایک نام ” فرقان “ بھی ہے گو پہلے قرآن کریم کے نزول کا ذکر فرمایا جا چکا ہے مگر دوبارہ دوسرے لفظ کو لا کر بیان کرنے سے خاص مقصود ہے۔ وہاں فرمایا تھا کہ یہ کتاب مقتضائے حکمت کے مطابق نازل ہوئی ہے یعنی ضرورت حقہ کو پورا کرنے والی ہے۔ اس جگہ توریت و انجیل کا ذکر کر کے ان کی تحریف کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے جس کی بتفصیل سورة بقرہ میں بیان کردیا تھا تو اس لیے جب تحریف ہوگئی تو حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کوئی کتاب نہ رہی پس اللہ تعالیٰ نے فرقان حمید کو نازل کیا کہ اس سے حق و باطل میں فرق واضح ہوجائے۔ چناچہ وہ ہوگیا اور اس وجہ سے قرآن کریم کو ” الفرقان “ کہا گیا ہے۔ اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے والے کون ہیں ؟ 10: اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے والے اہل کتاب یعنی یہودو نصاریٰ ہیں جنہوں نے قرآن کریم کو اللہ کی کتاب ماننے سے انکار کیا اور محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کا رسول ماننے سے منکر ہوگئے۔ اس لیے کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اپنی کتابوں نے پیش گوئی کے طور پر بتا دیا تھا کہ خاتم الانبیاء ﷺ کی بعثت ہوگی۔ یہ وہی لوگ ہیں جو لوگوں کے سامنے وقتاً فوقتاً یہ بیان کرتے رہتے تھے۔ سورة بقرہ میں اس کی تفصیل بھی گزر چکی ہے اب ان ہی لوگوں نے انکار کرنے میں پہل کردی حالانکہ ان کے پاس نکار کی کوئی گنجائش ہی موجود نہ تھی۔ ایک ایک کر کے وہ سب نشان دیکھ چکے تھے جو نبی کریم ﷺ کی بعثت کے متعلق ان کو بتائے اور پڑھائے جاتے تھے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ ان لوگوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کو اس طرح پہچان لیا ہے جس طرح انسان اپنی اولاد کو پہچانتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ پختہ دلائل سے ان کو معلوم ہے۔ اس وقت یہ جو تسلیم نہیں کر رہے تو صرف ان کو یہ دکھ کھا گیا ہے کہ آنے والے رسول یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کا تعلق بنی اسرائیل سے کیوں نہیں۔ حالانکہ یہ بات بھی ان پر واضح کردی گئی تھی کہ اس کا تعلق ” تمہارے بھائیوں “ سے ہوگا تم سے نہیں اور ظاہری ہی ہے کہ بنی اسرائیل کے بھائی تو بنی اسماعیل ہی تھے اور محمد رسول اللہ ﷺ کا تعلق بھی بنی اسماعیل ہی کے ساتھ تھا اور آپ ﷺ ذریت ابراہیم (علیہ السلام) ہی سے متعلق تھے۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو سزا دینے پر قادر ہے : 11: اللہ تعالیٰ نے اسمائے صفات میں سے ایک اسم ” منتقم ‘ اور ” ذوانتقام “ ہے یعنی سزا پہنچانے والا۔ سزا دینے والا۔ مجرم کے لیے اس وقت تک تو گنجائش موجود ہے جب تک کہ وہ زندہ ہے کیونکہ کسی وقت بھی وہ اپنے جرم تائب ہو سکتا ہے اور تائب کے متعلق اسلام کا فیصلہ ہے کہ توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے جرم کیا ہی نہیں اور توبہ نام ہے اقرار جرم کرنے کے بعد آئندہ وہ کام نہ کرنے کا اقرار کرنا اور اس طرح معافی اس چیز کا نام ہے کہ جو اس فعل کی سزا اس کو ملنا تھی وہ نہ دے کر اس کو معافی دی جائے۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے اور بخش دے اور معاف فرما دے اس کو کون روک سکتا ہے ؟ ہاں ! جہاں اس نے اعلان فرما دیا کہ اس مجرم نے اگر جرم سے توبہ نہ کی تو اور بغیر توبہ کئے جرم کرتا ہی مرگیا تو اس کو معاف نہیں کیا جائے گا جیسے شرک کرنے والا تو یقیناً ایسا ہی ہوگا کیونکہ فیصلہ الٰہی کے خلاف ممکن نہیں ہو سکتا۔ مجرموں کے لیے سزا اس لیے لازم ہے کہ انہوں نے توبہ نہ کی اور جرم کرتے کرتے مر گئے۔ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جہاں وہ رحمن ، رحیم اور رؤف ہے وہاں وہ عادل بھی ہے اور صفت معدلت کا اظہار مجرموں اور سرکشوں کے مقابلہ میں سزا و انتقام ہی ہو سکتا ہے۔ اسے سزا دینے میں ہرگز کوئی عار نہیں آتا کہ اس عار سے بچنے کے لیے اسے مسیحیت کے عقیدہ کی طرح مصلوبیت اور کفارہ کے پیچ در پیچ راستے اختیار کرنے پڑیں۔ جن لوگوں نے اپنے خدا کو صرف رحیم ہی رحیم مانا ہے اس کا خدا کامل نہیں بلکہ ناقص ہے۔ خیال رہے کہ سورة کا اصل موضوع مسیحیت کی تردید ہے اس لیے عموماً ایسی ہی صفات کا اثبات کیا گیا ہے جن سے مسیحیت ہی کے کسی نہ کسی پہلو پر ضرب لگے۔ عزیز یعنی سزا دینے پر قادر ہے۔ اور ہر حال میں سب سے بالادست اور قویٰ تر ہے۔ وہ مسیحیوں کا خدا نہیں کہ انسانی قالب اختیار کر کے طرح طرح کی کمزوریوں اور بیچارگیوں کا شکار بن جائے اور دشمنوں کے ہاتھوں گرفتار ہو کر سولی پر موت تک پائے۔ اس کی صفت عزیزیت اس تخیل ہی سے انکار کرتی ہے۔
Top