Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 82
وَ مَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْهُمْ مِّنْ قَرْیَتِكُمْ١ۚ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَهَّرُوْنَ
وَمَا : اور نہ كَانَ : تھا جَوَابَ : جواب قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ قَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَخْرِجُوْهُمْ : انہیں نکال دو مِّنْ : سے قَرْيَتِكُمْ : اپنی بستی اِنَّهُمْ : بیشک اُنَاسٌ : یہ لوگ يَّتَطَهَّرُوْنَ : پاکیزگی چاہتے ہیں
تو ان سے اس کا جواب کچھ نہ بن پڑا بولے سو یہ بولے کہ لوط اور ان کے گھر والوں کو گاؤں سے نکال دو کہ یہ لوگ پاک بننا چاہتے ہیں
قولہ تعالیٰ : آیت : وما کان جواب قومہ الا ان قالوا اخرجوھم یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی اتباع کرنے والوں کو بستی سے باہر نکال دو ۔ اور یتطھرون کا معنی ہے کہ لوگ تو اس قسم کا کام کرنے سے بڑے پاکباز بنتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : تطھر الرجل یعنی وہ گناہ سے پاک رہا۔ حضرت قتادہ (رح) نے کہا ہے : قسم بخدا ! انہوں نے انہیں بغیر عیب کے عیب لگا دیا ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 425 ) ۔ آیت : من الغٰبرین یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب میں باقی رہنے والے ہیں۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : غبرا لشی تب کہا جاتا ہے جب کوئی شے گزر جائے ( ختم ہوجائے) اور جب کوئی شے باقی رہے تب بھی غبر کہا جاتا ہے۔ پس یہ الفاظ اضداد میں سے ہے۔ اور ایک جماعت نے کہا ہے : گزرنے والے کے لیے عابر عین کے ساتھ اور باقی رہنے والے کے لیے غابر غین کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ اسے ابن فارس نے ” الجمل “ میں بیان کیا ہے۔ اور زجاج (رح) نے کہا ہے : آیت : من الغبرین یعنی وہ نجات سے غائب ہونے والوں میں سے ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنی عمر کے طویل ہونے کے سبب پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگی۔ نحاس نے کہا ہے : اور ابو عبیدہ اس طرف جاتے ہیں کہ اس کا معنی من المعمرین ہے یعنی وہ بوڑھی ہوگئی۔ اور لغت میں اکثر یہ ہے کہ غابر باقی رہنے والا ہوتا ہے۔ راجز نے کہا ہے : فما ونی محمد مذ ان غفر لہ الالہ ما مضی وما غبر اس میں غبر باقی وہنے والا کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے
Top