Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 105
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
وَ
: اور
اِلٰي
: طرف
مَدْيَنَ
: مدین
اَخَاهُمْ
: ان کے بھائی
شُعَيْبًا
: شعیب
قَالَ
: اس نے کہا
يٰقَوْمِ
: اے میری قوم
اعْبُدُوا
: عبادت کرو
اللّٰهَ
: اللہ
مَا لَكُمْ
: نہیں تمہارا
مِّنْ
: سے
اِلٰهٍ
: معبود
غَيْرُهٗ
: اس کے سوا
قَدْ جَآءَتْكُمْ
: تحقیق پہنچ چکی تمہارے پاس
بَيِّنَةٌ
: ایک دلیل
مِّنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: تمہارا رب
فَاَوْفُوا
: پس پورا کرو
الْكَيْلَ
: ناپ
وَالْمِيْزَانَ
: اور تول
وَلَا تَبْخَسُوا
: اور نہ گھٹاؤ
النَّاسَ
: لوگ
اَشْيَآءَهُمْ
: ان کی اشیا
وَلَا تُفْسِدُوْا
: اور فساد نہ مچاؤ
فِي الْاَرْضِ
: زمین (ملک) میں
بَعْدَ
: بعد
اِصْلَاحِهَا
: اس کی اصلاح
ذٰلِكُمْ
: یہ
خَيْرٌ
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
اِنْ
: اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
مُّؤْمِنِيْنَ
: ایمان والے
اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا شعیب نے کہا اے برادران قوم اللہ ہی کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی پس پورا پورا ناپ تول کرو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی مت کروزمین کی درستگی کے بعد اس میں فساد مت پھیلائو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔
مشرکین مکہ اور دوسرے لوگوں کو عبرت دلانے کے لیے چار معذب قوموں کا تذکرہ ہوچکا۔ اب پانچویں قوم قوم شعیب کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا ط قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہ َ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط قَدْ جَآئَتْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَھُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ ۔ وَ لاَ تَقْعُدُوما بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِہٖ وَ تَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ج وَاذْکُرُوْٓا اِذْ کُنْتُمْ قَلِیْلًا فَکَثَّرَکُمْ ص وَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ۔ (الاعراف : 85، 86) ” اور مدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو بھیجا شعیب نے کہا اے برادران قوم اللہ ہی کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آگئی پس پورا پورا ناپ تول کرو اور لوگوں کی چیزوں میں کمی مت کروزمین کی درستگی کے بعد اس میں فساد مت پھیلائو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو۔ اور نہ بیٹھو ہر راستے پر کہ لوگوں کو تم ڈرائو اور تم روکتے ہو اللہ کے راستے سے جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اور تم اس میں کجی تلاش کرتے ہو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے پھر اللہ نے تم میں اضافہ کیا اور دیکھو کیسے انجام ہوا فساد مچانے والوں کا “۔ ان دونوں آیات کریمہ میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی اس دعوت کو بیان کیا گیا ہے جو آپ نے اپنی قوم کے سامنے پیش فرمائی۔ اس سے پہلے کہ اس دعوت کی تفصیل بیان کی جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قوم شعیب جنھیں مدین کے نام سے یاد کیا گیا ہے اس کے بارے میں کچھ ضروری باتیں کہہ دی جائیں۔ قومِ شعیب کی تاریخ اور حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعوت مدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تیسری بیوی قطوراء کے صاحبزادے مدیان کی اولاد ہیں۔ ان کی طرف منسوب ہونے کے باعث آل مدین یا آل مدیان کہلاتے ہیں اور کثرت استعمال سے صرف مدین استعمال ہونے لگا یہ پوری قوم مدیان کی اولاد پر ہی مشتمل نہ تھی بلکہ جو لوگ ان کے ہاتھ پر ایمان لائے یا وہاں بس جانے کی وجہ سے اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنے لگے وہ بھی مدین یا آل مدین کہلائے۔ مدین کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحر احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا۔ قدیم زمانے میں جو تجارتی شاہراہ بحر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور ینبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی اور ایک دوسری تجارتی شاہرہ جو عراق سے مصر جاتی تھی اس کے عین چورا ہے میں ان کی بستیاں آباد تھیں۔ اپنے محل وقوع کی اہمیت اور افادیت کے باعث ان کے باقی متمدن ملکوں سے قریبی تعلقات بھی قائم تھے اور تجارتی روابط کے باعث ان کی مالی اور اقتصادی حالت نہایت مضبوط تھی۔ ان کا پیشہ چونکہ بنیادی طور پر تجارت تھا اس لیے جب ان میں عقیدے کی خرابی کے ساتھ ساتھ اخلاقی فساد پیدا ہوا تو وہ سارے عیوب ان میں در آئے جو عام طور پر کاروباری بےراہ روی کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اسی وجہ سے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی دعوت میں عقیدے کی خرابی کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان کے کاروباری خرابیوں پر بطور خاص تنقید فرمائی چناچہ قرآن کریم نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعوت کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے اسے سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے سب سے پہلے وہی اصولی بات بیان فرمائی جس سے ہر پیغمبر اپنی دعوت کا آغاز کرتا رہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! تمہاری ساری برائیوں اور خرابیوں کی بنیاد یہ ہے کہ تم نے اس زمین پر اپنے آپ کو ایک خود رو پودا سمجھ لیا ہے جو کسی نہ کسی طرح وجود میں تو آگیا ہے لیکن اس کے وجود کا کوئی مقصد نہیں اور نہ اسے کبھی کسی کے سامنے جواب دہی کرنی ہے وہ جب تک زندہ ہے تو محض زندگی کے لیے زندہ ہے اور اس کی زندگی کی ساری مصروفیات صرف ضروریات کے حصول یا ضروریات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہے دنیا میں جو شخص بھی آیا ہے اس کا کام یہ ہے کہ وہ کھائے پیئے ‘ بہتر سے بہتر مکان بنائے ‘ اچھی سے اچھی سواری تلاش کرے ‘ خوبصورت بیوی سے نکاح کرے ‘ اولاد کی خوشیاں دیکھے ‘ اپنے پہلو میں جو خواہشات کا سمندر رکھتا ہے اس میں جب چاہے جیسے چاہے ڈبکیاں لگاتا پھرے ‘ اس کے ارادوں میں نیک و بد کی کسی تمیز کا سوال پیدا نہیں ہوتا ‘ اس کی زندگی کی کوئی جہت ہے نہ کوئی منزل ‘ وہ جس معاشرے میں رہتا ہے اس میں نہ کوئی حقوق ہیں نہ فرائض ‘ اخلاق نام کی کسی چیز کا اس کے پاس گزر ہی ممکن نہیں ‘ وہ ایک نباتاتی اور حیوانی زندگی گزارتا ہے اور جب کبھی موت آئے گی تو اس کی زندگی کا آخری حرف بھی مٹ جائے گا۔ اس میں کسی آقا ومالک کا کوئی تصور نہیں جس کے سامنے جواب دہی کرنی ہو۔ اس زندگی کے بعد کسی اور زندگی کا کوئی وجود نہیں ‘ جس کے لیے تیاری کرنی ہو۔ حضرت شعیب نے اپنی قوم سے کہا کہ یہی وہ تصور ہے جس نے تمہاری زندگیوں کو نیکی کے نور سے محروم کردیا ہے تمہاری انسانیت حیوانیت کی نذر ہوگئی ہے ‘ تمہارے سامنے جلبِ زر کے سوا اور کوئی مقصد نہیں تم دوسروں سے بالا بلند رہنا چاہتے ہو چاہے اس کے لیے تمہیں دوسروں کا خون پینا پڑے۔ تمہارے زندگی کے اسی تصور نے اللہ کی زمین کو فساد سے بھر دیا ہے اس لیے جب تک تم اس بنیادی بات کو نہ سمجھ لو کہ تم کوئی خودرو پورا نہیں ہو تمہارا ایک خالق ومالک ہے اس حکیم ذات نے تمہیں ایک مقصد زندگی دے کر پیدا کیا ہے اس مقصد زندگی کو پورا کرنے کے لیے اس نے ایک قانون عطا کیا ہے اور اس قانون کو پہنچانے اور دنیا میں اسے برپا کرنے کے لیے اللہ نے اپنے رسول بھیجے انھوں نے آکر یہ تعلیم دی کہ تمہیں یہاں ہمیشہ نہیں رہنا ‘ ایک دن تمہیں موت آئے گی اور یہ موت بھی آخری موت نہیں ہوگی پھر ایک دن ایسا آئے گا جسے قیامت کہتے ہیں۔ تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور ہر شخص اللہ کے سامنے زندگی کے اعمال کا حساب دینے کے لیے پیش کیا جائے گا۔ کامیابی اسے ملے گی جس کی زندگی کے اعمال اچھے ہوں گے اور جس نے زندگی اپنے آقا کے احکام کے مطابق نہیں گزاری ہوگی وہ ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہوجائے گا۔ آپ نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ تمہاری زندگی کی بہتری اور کامیابی صرف اس بات کو سمجھنے میں ہے کہ تمہارا ایک آقا اور معبود ہے اس کی آقائی اور بندگی میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ اس ایک تصور کو قبول کرلینے کے بعد تمہاری ایک ایک فکری کجی اور ایک ایک بےراہ روی کا علاج ہوجاتا ہے اور زندگی کی ایک ایک چول اپنی جگہ ٹھیک بیٹھ جاتی ہے۔ اسی بات کو سمجھانے کے لیے میں تمہارے پاس اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ رہی یہ بات کہ میں واقعی اس کا رسول ہوں یا نہیں اس کے لیے تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے بینہ آگیا ہے۔ اس بینہ سے دو باتیں مراد ہوسکتی ہیں یا تو یہ بات کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو اللہ نے اسی طرح بہت نمایاں قسم کے چند معجزات عطا فرمائے تھے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا فرمائے گئے جنھیں دیکھ کر ہر شخص اندازہ کرسکتا تھا کہ یہ شخص واقعی اللہ کا رسول ہے اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول کی ذات بجائے خود بینہ ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت ‘ اس کی شخصیت کی دلآویزی ‘ اس کی بےعیب زندگی ‘ سچائی کے تول تلنے والا اس کا ہر عمل اور قول ‘ وہ ان پتھروں کے ڈھیر میں چمکتے ہوئے ایک ہیرے کی مانند ہوتا ہے جسے دیکھنے والا ہر فرد اپنے دل میں یہ یقین کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یقینا یہ شخص اللہ کا رسول ہے چاہے وہ اپنے جاہلی تعصبات کی وجہ سے ماننے سے انکار بھی کرے۔ حضرت شعیب بھی ایسے ہی تھے جو چلتے پھرتے اپنی قوم میں اللہ کی دلیل تھے اور جن کی ذات قوم کے لیے مینارہ نور تھی اور ان کی زندگی ان گم گشتگان کے لیے ایک ایسا نور کا سامان تھی جس سے راستے کی ہر تاریکی دور ہوجاتی ہے۔ قومِ شعیب کی دونمایاں خرابیاں اس کے بعد حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی اس نمایاں گمراہی کا ذکر فرمایا ہے جس کی وجہ سے وہ قوم دوسری قوموں کے لیے ایک عذاب بن گئی۔ چونکہ یہ قوم بنیادی طور پر ایک تجارت پیشہ قوم تھی اور اس زمانے کے متمدن ممالک کو جانے والی تجارتی شاہراہیں ان کے ملک سے ہو کر گزرتی تھیں یہ ان شاہراہوں پر قابض ہونے کی وجہ سے اگر ایک طرف تجارتی مفادات حاصل کرنے میں بڑی آسانی محسوس کرتے تھے تو دوسری طرف گزرنے والے تجارتی قافلوں کو مختلف طریقوں سے لوٹنا ان کا دل پسند مشغلہ بن گیا تھا۔ تجارت کوئی بھی ہو اس کی بنیاد لین دین کے طریقوں کا ٹھیک ہونا ہے چاہے یہ طریقے کیل اور وزن کے نام سے یاد کیے جائیں یا آج کی زبان میں کسی اور نام سے۔ اس زمانے میں چونکہ لین دین زیادہ تر ناپ تول سے ہوتا تھا اس لیے بطور خاص اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ تمہیں اپنے تجارتی معاملات میں دیانت و امانت کو اصول بنانا چاہیے۔ اس لیے جب تم دوسرے لوگوں سے معاملہ کرو تو ان کی چیزوں میں کمی مت کرو۔ یہ کوشش نہ کرو کہ جب لو تو پورا لو اور جب دینے کا وقت آئے تو کسی نہ کسی طریقے سے نقصان پہنچائو یعنی کوئی چیز اگر تول کر یا ناپ کردو تو ہر صورت میں ڈنڈی مارو لیتے ہوئے بھی خیانت کرو اور دیتے ہوئے بھی خیانت کرو اور یہ خیانت صرف ناپنے تولنے کی چیزوں میں نہیں بلکہ ہر طرح کے حقوق میں بھی مراد ہے۔ ناپ تول میں کمی کو تطفیف کہا گیا ہے لیکن حضرت عمر فاروق ( رض) نے اس لفظ کی معنویت میں وسعت پیدا فرمائی اور یقینا انھوں نے یہ بات آنحضرت ﷺ سے سیکھی ہوگی آپ نے ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا جو تعدیل ارکان کا خیال کیے بغیر جلدی جلدی نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے اسے بلا کر فرمایا کہ تم نے تطفیف کا ارتکاب کیا ہے کہ نماز کے جو ارکان ہیں تم نے انھیں ٹھیک طرح سے ادا نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حقوق اللہ ہوں یا حقوق العباد ‘ ان کو ٹھیک طرح سے انجام دینا اور معاملات میں ٹھیک ٹھیک اپنی ذمہ داری کا ادا کرنا اور ہر معاملے میں دیانت و امانت کو رہنما بنانا یہ وہ چیز ہے جس سے انسانی معاشرے میں ایک توازن اور اعتدال قائم ہوتا ہے اور اسی کے نتیجے میں معاشرہ متوازن ہوتا اور پھلتا پھولتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر ستون کے توازن اور عدل کے سہارے کھڑا کیا ہے اسی طرح انسانی زندگی بھی اسی توازن اور عدل کے نتیجے میں آسودہ ہوتی اور برگ و بار پیدا کرتی ہے۔ جس گھر میں حقوق و فرائض میں توازن ہوتا ہے اس گھر میں خوشیوں کی پھوار پھوٹتی ہے اور جس معاشرے میں یہ توازن وسیع سطح پر قائم ہوجاتا ہے وہ معاشرہ جنت کا نمونہ بن جاتا ہے اور قوم شعیب بنیادی طور پر اس توازن کو چھوڑ چکی تھی جس کا نتیجہ یہ تھا کہ انکی بےاعتدالیوں سے زمین میں فساد پھوٹ پڑا تھا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے ان کو سمجھایا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری اجتماعی زندگی اس فساد سے محفوظ رہے تو پھر تم اپنے معاشرے میں اس میزان کو قائم کرنے کی کوشش کرو اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین فساد سے بھر جائے گی حالانکہ تم جانتے ہو کہ اللہ کی اس زمین میں جب انسانی فساد انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ پھر زیادہ ڈھیل نہیں دیتے تم سے پہلی قوموں نے زمین میں فساد مچایا ‘ حقوق و فرائض شکست کیے تو بالآخر وہ تباہ کردی گئیں تو زمین کی اس درستی کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں اب موقع دیا ہے کہ تم زمین کے اس نظام کو باقی رکھو اور اس میں فساد نہ پھیلائو کیونکہ فساد پھیلانے والی قوم کے مٹ جانے کے بعد زمین فساد سے پاک ہوجاتی ہے تمہیں ایک اصلاح یافتہ زمین ملی لیکن تم دوبارہ اسے فساد سے بھرے دے رہے ہو تم اگر واقعی اپنے پہلو میں ایمان رکھتے ہو اور تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ پہلی قومیں اللہ کی نافرمانی کے باعث ہی عذاب کا شکار ہوئیں تو پھر میں جو کچھ تمہیں کہہ رہا ہوں تمہارے لیے اسے قبول کرنے میں ہی خیریت ہے۔ یہاں ممکن ہے آپ کو یہ خیال پیدا ہو کہ وہ لوگ تو کافر تھے انھیں مومن کیوں کہا جا رہا ہے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ یہ قوم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے مدیان کی طرف منسوب تھی اس لحاظ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ہدایت کی کسی حد تک وارث بھی تھی وہ اگرچہ اپنے بگاڑ میں بہت دور نکل چکے تھے لیکن وہ ہدایت کی بنیادی باتوں سے بالکل تہی دامن نہ تھی۔ یوں کہہ لیجیے کہ وہ اپنے دور کے بگڑے ہوئے مسلمان تھے، اس لیے انھیں مومن کہہ کر اصلاح کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔ اگلی آیت کریمہ میں ان کے بگاڑ کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے کہ حبِّ دنیا اور طلب منفعت کے جوش نے تمہارا یہ حال کردیا ہے کہ تجارتی قافلے جن راستوں سے گزرتے ہیں تم ان راستوں پر بیٹھ کر زبردستی ان سے ٹیکس وصول کرتے ہو۔ اور انھیں ڈرا دھمکا کر جو مفادات بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں انھیں حاصل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ آج بھی آپ ملک کے بہت سارے حصوں میں دیکھ سکتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی کسی و ڈیرے یا ٹھیکیدار کو موقع ملتا ہے وہ ایک چوکی بنا کر چند لوگوں کو آنے جانے والی گاڑیوں سے نام نہاد ٹیکس وصول کرنے پر لگا دیتا ہے اور آزاد قبائل میں تو قدم قدم پر آپ کو ایسی صورتحال کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملے گا۔ یہ قوم شعیب بھی معلوم ہوتا ہے اپنے محل وقوع سے فائد اٹھاتی ہوئی تجارتی قافلوں پر اسی طرح ظلم توڑتی تھی اور دوسری حرکت ان کی یہ تھی، معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) اپنی قوم اور آنے جانے والے لوگوں کے سامنے بھی اللہ کے دین کی دعوت پیش کرتے ہوں گے اور ان کی قوم کا حال یہ تھا کہ جہاں بھی انھیں خبر ہوتی کہ کوئی شخص حضرت شعیب (علیہ السلام) پر ایمان لایا ہے تو وہ ہر ممکن طریقے سے اسے روکنے کی کوشش کرتے ‘ ڈراتے دھمکاتے بھی اور فکری کج روی کا سامان بھی کرتے ‘ مختلف غلط فہمیاں پیدا کرتے ‘ عجیب و غریب سوالات اٹھاتے تاکہ لوگ بدگمان ہو کر حضرت شعیب کو چھوڑ دیں۔ تنبیہ کے اس انداز کے ساتھ ساتھ ترغیب کا انداز بھی اختیار فرمایا گیا کہ دیکھو تم ایک مختصر سے خاندان کی صورت میں اس جگہ پر آکر آباد ہوئے تھے اور آج اللہ نے تمہیں ایک بڑی قوم میں تبدیل کردیا ہے اور تمہیں جائے سکونت ایسی بخشی ہے جس کی وجہ سے تمہارا تمام متمدن ملکوں سے رشتہ ہے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ تم تاریخ سے ناواقف نہیں ہو تم خوب جانتے ہو کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے تمہاری طرح زمین میں فساد پھیلایا ان کا انجام کیا ہوا۔ ایک طرف اللہ کی نعمتیں ہیں اور دوسری طرف تاریخ کا یہ ہولناک سبق ہے۔ کیا ان دونوں میں سے تم کسی سے بھی فائدہ نہ اٹھائو گے بلکہ ہر موقع پر تم کوئی نہ کوئی اعتراض کر کے پہلو بچا کر نکل جانے کی کوشش کرتے ہو چناچہ اگلی آیت کریمہ میں ان کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے اور اس جواب میں ان کا اعتراض جھلکتا ہوا صاف محسوس ہوتا ہے۔
Top