Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 30
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ اِ۟بْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ١ۚ یُضَاهِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ١٘ۚ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ
وَقَالَتِ
: اور کہا
الْيَهُوْدُ
: یہود
عُزَيْرُ
: عزیر
ابْنُ اللّٰهِ
: اللہ کا بیٹا
وَقَالَتِ
: اور کہا
النَّصٰرَى
: نصاری
الْمَسِيْحُ
: مسیح
ابْنُ اللّٰهِ
: اللہ کا بیٹا
ذٰلِكَ
: یہ
قَوْلُهُمْ
: ان کی باتیں
بِاَفْوَاهِهِمْ
: ان کے منہ کی
يُضَاهِئُوْنَ
: وہ ریس کرتے ہیں
قَوْلَ
: بات
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر)
مِنْ قَبْلُ
: پہلے
قٰتَلَهُمُ
: ہلاک کرے انہیں
اللّٰهُ
: اللہ
اَنّٰى
: کہاں
يُؤْفَكُوْنَ
: بہکے جاتے ہیں وہ
اور یہود نے کہا عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ سب ان کے اپنے منہ کی باتیں ہیں۔ یہ نقل کررہے ہیں ان لوگوں کی جو ان سے پہلے کافر تھے۔ اللہ ان کو ہلاک کرے، کہاں ان کی عقل الٹی ہوئی جارہی ہے۔
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُنِابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ط ذٰلِکَ قَوْلُھُمْ بَاَفْوَاھِھِمْ ج یُضَاھِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُط قٰـتَلَھُمُ اللّٰہُ ج ز اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ ( التوبۃ : 30) (اور یہود نے کہا عزیر اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔ یہ سب ان کے اپنے منہ کی باتیں ہیں۔ یہ نقل کررہے ہیں ان لوگوں کی جو ان سے پہلے کافر تھے۔ اللہ ان کو ہلاک کرے، کہاں ان کی عقل الٹی ہوئی جارہی ہے۔ ) سابقہ آیت میں لگائے گئے الزامات کے ثبوت سابقہ آیت کریمہ میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو چارج شیٹ کیا۔ اور ان پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے ان کے چند جرائم کا ذکر فرمایا ہے۔ جن میں سے پہلا جرم اور گمراہی یہ ہے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اس الزام کا ثبوت دیا جارہا ہے اور جو جرم ان پر عائد کیا گیا ہے اس کی دلیل دی جارہی ہے۔ اللہ پر ایمان لانے کا معنی صرف اسے مان لینا نہیں بلکہ اس طرح ماننا ہے جس طرح اللہ کے نبیوں اور اس کی کتابوں نے تعلیم دی ہے۔ جو بھی نبی دنیا میں آیا اور جو کتاب بھی نازل ہوئی اس کی پہلی دعوت یہ تھی اعبدواللہ مالکم من الہ غیرہ ” اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی الہٰ نہیں “ اور جابجا اس کی وضاحت فرمائی کہ کوئی نہ تو اللہ کی ذات میں شریک ہے، نہ اس کی صفات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ وہ وحدہٗ لاشریک ہے۔ وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ وہ ہر طرح کی احتیاج سے پاک ہے۔ وہ نہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ کوئی اس کا بیٹا ہے۔ اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ اس کی کوئی نظیر اور مثال نہیں۔ لیکن اہل کتاب میں سے یہود نے باوجود اہل کتاب ہونے اور باوجود ایک پیغمبر کی امت ہونے کے اللہ کو تسلیم تو کیا لیکن ساتھ ہی حضرت عزیر (علیہ السلام) کا اللہ کا بیٹا بھی بنایا۔ جو شخص بھی اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتا ہے اور پھر وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں اللہ کو مانتا ہوں تو اس کے ماننے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ کو مانتا ضرور ہے لیکن وحدہٗ لاشریک نہیں مانتا۔ الوہیت کوئی ایسا منصب نہیں جس کی نسبت مختلف ذاتوں کی طرف کی جاسکے۔ اس کے لیے ایک ہونا اور لاشریک ہونا اس کے منصب کا تقاضا ہے۔ بیٹا اپنے باپ کا ہمرنگ، ہم جنس اور شریک ہوتا ہے۔ وہ ان تمام خصوصیات اور صفات کا مالک ہوتا ہے جس سے باپ متصف ہوتا ہے۔ اگر باپ الہٰ ہے تو بیٹا بھی الہٰ ہوگا، اگر باپ خالق ہے تو بیٹا بھی خالق ہوگا۔ اگر باپ معبود ہے تو بیٹا بھی معبود ہوگا۔ اگر باپ اختیاراتِ کلی کا مالک ہے تو بیٹا بھی مختارِ کل ہوگا۔ اندازہ فرمائیے ! اس طرح سے بیٹے کو ماننے کے بعد اللہ کی الوہیت اور اس کی وحدانیت کا کیا تصور باقی رہ جاتا ہے۔ اس لیے یہاں بطور دلیل فرمایا گیا ہے کہ ایک طرف تم اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف اس کے لیے بیٹا بھی ثابت کرتے ہو۔ سوچو اس تضاد کا جواز کیا ہے ؟ عزیر (علیہ السلام) کون ہیں ؟ عزیر وہی ہیں جنھیں تورات ” عزرا “ کے نام سے ذکر کرتی ہے۔ ان کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح ہے۔ بختِ نصر کے حملوں کے بعد یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ ہیکلِ سلیمانی زمین بوس کردیا گیا۔ بنی اسرائیل بہت بڑی تعداد میں مقتول ہوئے اور بہت سے غلام بنا کر بابل میں لے جائے گئے۔ سب سے بڑاحادثہ یہ ہوا کہ تورات کا کوئی نسخہ باقی نہ رہا۔ ایک ایک نسخہ جلادیا گیا۔ بنی اسرائیل مسلمانوں کی طرح اپنی کتاب کے حافظ نہیں تھے۔ تورات کے جلادینے کا مطلب یہ تھا کہ تورات کا وجود دنیا سے ختم ہوگیا۔ لیکن یہود کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ جب ایرانیوں نے اہل بابل کو شکست دی تو انھوں نے بنی اسرائیل پر رحم کھاتے ہوئے انھیں قید سے رہائی دی اور واپس فلسطین اور یروشلم جانے کی اجازت دے دی۔ چناچہ واپس آنے والے قیدیوں میں عزیر بھی شامل تھے انھیں ایرانی بادشاہ نے مجازبنایا کہ تم ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کرو اور بنی اسرائیل کے حالات درست کرو۔ چناچہ اس اجازت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت عزیر (علیہ السلام) نے تورات کے عہد نامہ عتیق کو ازسر نو مرتب کیا اور بنی اسرائیل کی نشأۃ ثانیہ اور شریعت کی تجدید کا وہ زبردست کام کیا جس سے بنی اسرائیل کو ازسر نو قومی زندگی نصیب ہوئی۔ ان کے اسی کارنامے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں ان کا بہت احترام پایا جاتا ہے اور یہ احترام اور تعظیم بعض گروہوں میں اس حدتک بڑھ گیا کہ انھوں نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ قرآن کریم نے تمام یہود پر عزیر کو بیٹا بنانے پر الزام نہیں لگایا بلکہ اس کے بعض گروہوں کی طرف اس کی نسبت کی گئی ہے۔ لیکن قرآن کریم کے اسلوب اور یہود کی خاموشی سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ الزام یہود کو تسلیم تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ہمارے آباؤ اجداد بھی یہ عقیدہ رکھتے تھے اور اب بھی اس اعقیدہ کے حاملین موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قرآن کریم کے اس الزام کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بعض اہل علم کا گمان یہ ہے کہ یہود نے ایک خاص مقصد کے لیے حضرت عزیر (علیہ السلام) کے بارے میں یہ عقیدہ اختراع کیا۔ وہ مقصد یہ تھا کہ یہود کے عوام وخاص کو یہ بات معلوم تھی کہ تورات دنیا سے ناپید ہوچکی ہے، اب اس کا کوئی وجود نہیں۔ لیکن جب حضرت عزیر نے اسے ازسر نو اپنے طور سے کچھ بزرگانِ قوم کو ساتھ لے کر مرتب کرکے قوم کے سامنے پیش کیا تو لوگوں کے لیے اسے تسلیم کرنا مشکل تھا وہ یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ محض اپنی یادداشت سے ایک کتاب دوبارہ مرتب کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہمارے یہاں اس کی کوئی مثال نہیں تو کچھ لوگوں نے انھیں باور کرانے کے لیے یہ مشہور کردیا کہ اسے مرتب کسی عام شخص نے نہیں کیا بلکہ اس عظیم کام کے لیے اللہ نے اپنے بیٹے کو بھیجا ہے اور اس نے بنی اسرائیل پر یہ احسان کیا ہے۔ اس طرح سے لوگوں کے لیے نئی تورات کو قابل قبول بنایا گیا۔ نصاریٰ پر یہ الزام لگایا گیا کہ انھوں نے مسیح کو اللہ کا بیٹا بنالیا اور اس کے ثبوت کی چنداں حاجت بھی نہیں۔ اس لیے کہ نصاریٰ من حیث الامت اس عقیدے کو حرز جاں بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے لیے آج تک یہ مسئلہ درد سر بنا ہوا ہے کہ چونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے باپ کا کوئی وجود نہیں انھیں ایک کنواری لڑکی نے جنا ہے اور دنیا میں چونکہ آج تک بغیر باپ کے کوئی پیدا نہیں ہوا یہ اللہ کا ایک اٹل قانون ہے کہ وہ ماں باپ سے اولاد پیدا کرتا ہے تو عیسیٰ چونکہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خود پروردگار ان کا باپ ہے اور وہ ابن اللہ ہیں۔ قرآن کریم نے مختلف مقامات پر اس فاسد عقیدہ کی تردید فرمائی ہے اور ایک جگہ اس عقیدہ کے خلاف عقل ہونے پر ایسی سادہ لیکن محکم بات فرمائی گئی ہے جس کا کوئی جواب ممکن نہیں۔ وہ بات یہ ہے کہ ان مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل آدم ” عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال اللہ کے ہاں آدم (علیہ السلام) کی مثال ہے “ حضرتِ آدم کو تمام اہل مذاہب کے عقیدے کے مطابق اللہ نے بغیر ماں باپ کے محض اپنے دست قدرت سے بنایا اور کلمہ کن سے تخلیق فرمائی۔ تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ ہر شخص کے وجود کے لیے ماں باپ کا ہونا ضروری ہے اور جس کا باپ کوئی نہیں اس کا باپ خدا ہے۔ اس اصول کے پیش نظر تو حضرت آدم (علیہ السلام) کا نہ باپ ہے نہ ماں۔ تو کیا یہ کہا جائے گا کہ ان کا باپ بھی خدا ہے اور ان کی ماں بھی خدا ہے حالانکہ ایسی خلاف عقل بات آج تک کسی نے نہیں کہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل مذہب کو یہ بات تسلیم ہے کہ ہر شخص کا وجود محض اللہ کی قدرت سے ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو بغیر ماں باپ کے حضرت آدم کو پیدا کردے وہ چاہے تو ماں باپ ہوتے ہوئے بھی اولاد نہ دے اور چاہے تو ماں باپ بیشک اولاد کی عمر سے گزر چکے ہوں انھیں اولاد دے دے۔ جیسے حضرت زکریا کو حضرت یحییٰ جیسا بیٹا دیا گیا اور چاہے تو صرف ماں سے بیٹا پیدا کردے جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا یہ مختلف طریقے اس کی قدرت کا ظہور ہیں اور اس کی قدرت کسی ایک طریقے کی پابند نہیں۔ اس لیے عیسائیوں کا یہ عقیدہ اختیار کرنا اور ساتھ اللہ کی وحدانیت اور توحید کا دعویٰ کرنا اور اللہ پر ایمان رکھنے کا زعم رکھنا اس کی حیثیت ایک مذاق سے زیادہ نہیں۔ ذٰلِکَ قَوْلُھُمْ بَاَفْوَاھِھِمْ ” یہ ان کے اپنے منہ کی باتیں ہیں “۔ یعنی ایسی باتیں ہیں جن پر دلیل کوئی نہیں۔ انھوں نے بےسوچے سمجھے اپنے منہ سے نکال دی ہیں۔ جو پہلوں نے کہا بعد والوں نے اسی کی جگالی کی۔ اس کے بعد فرمایا : یُضَاھِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ { یُضَاھِئُوْن } بابِ مفاعلۃ سے ہے۔ اس کا مصدرمضاھاۃ مشابہت اور مماثلت کے معنی میں آتا ہے۔ یعنی یہ فرمایا جارہا ہے کہ عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو عقیدہ اختیار کیا یہ پہلی مشرک قوموں کی نقل کے سوا کچھ نہیں۔ ہر دور میں ایسی مشرک قومیں موجود رہی ہیں جنھوں نے اللہ کی ذات وصفات میں برگزیدہ لوگوں کو شریک ٹھہرایا ہے اور ان کے بارے میں عجیب و غریب تصورات اختیار کیے ہیں۔ اللہ کا ہر نبی اور رسول سب سے پہلے اللہ کی وحدانیت کی دعوت دیتا ہے اور شرک کی تمام ممکنہ صورتوں کا ابطال کرتا ہے۔ وہ بےمیل اور بےعیب توحید دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی پروردگار کے بارے میں ایسے ہی پاکیزہ تصورات اپنے ماننے والوں کو دئیے چناچہ ان کے حواریوں نے یہی پاکیزہ تعلیم آگے لوگوں تک پہنچائی۔ لیکن عیسائیت کے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ سینٹ پال جو ایک یہودی تھا اور جس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد ایک سازش کے تحت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا دعویٰ کرنے لگا بلکہ اس کی جسارت یہاں تک بڑھی کہ اس نے کہا کہ میں نے بادل میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا ہے انھوں نے مجھے اپنا جانشین بنایا ہے۔ اس طرح سے اس شخص نے حواریوں کو پیچھے چھوڑ کر مسیحیت کی نمائندگی کا تاج اپنے سر پر سجایا اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور عیسائیت کی نسبت سے ایسے ایسے عقیدے اختراع کیے جس کا تصور بھی انبیاء کی تعلیمات میں شرک اور کفر سے کم نہیں۔ اس نے سب سے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی امت کو شریعت سے آزاد کردیا ہے۔ ان کی ایمانی زندگی کے لیے چند بنیادی اعتقادات کافی ہیں۔ لیکن اپنی عملی زندگی کے لیے وہ جو چاہیں طریقہ اختیار کریں اس میں آزاد ہیں۔ اس طرح سے اس امت کو شریعت کی پابندیوں سے آزاد کرکے ہوائے نفس کا خوگر بنادیا اور دوسرا کارنامہ یہ انجام دیا کہ اس کے گرددوپیش پھیلی ہوئی مشرک قوموں کے تصورات کو نئے رنگ و روغن اور نئی تعبیرات کے ساتھ عیسائیت کا حصہ بنادیا چناچہ رومیوں اور یونانیوں میں اللہ کے بارے میں جو مشرکانہ تصورات پائے جاتے تھے انھیں اس طرح قبول کیا کہ ان پر متشابہ الفاظ اور کلمات کا رنگ چڑھادیا۔ مثلاً انجیل میں اللہ کو باپ کہہ کر پکارا گیا ہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) اپنی دعوت اور دعائوں میں اللہ کو باپ کہہ کر پکارتے ہیں اور خود اپنے آپ کو بیٹا قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح اہل ایمان لوگوں کو اللہ کو پیغام دیتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ تمہارا باپ یہ کہتا ہے۔ ان الفاظ سے پال نے فائدہ اٹھایا کیونکہ عبرانی زبان میں ” اب “ کا لفظ باپ کے لیے بھی آتا ہے اور رب کے لیے بھی اور ” ابن “ کا لفظ بیٹے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور بندے کے معنی میں بھی۔ ہر جگہ قرائن سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہاں یہ لفظ کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ تورات و انجیل حقیقت میں عبرانی زبان میں تھیں لیکن جب ان کے ترجمے ہوئے اور عبرانی زبان متروک ہوتی گئی تو ترجموں کے الفاظ کو اصل الفاظ سمجھ لیا گیا۔ مثلاً اب اور ابن عربی زبان میں باپ اور بیٹے کے لیے ہی بولا جاتا ہے، چناچہ اسی معنی کو حتمی قرار دے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور اللہ کو باپ قرار دے دیا گیا اور اس طرح سے خالق و مخلوق میں باپ اور بیٹے کا رشتہ قائم کردیا گیا حالانکہ بات بالکل واضح تھی کہ عبرانی زبان میں اب کو رب کے معنی میں اور ابن کو بندہ کے معنی میں استعمال کیا گیا تھا اور یہی وہ حقیقی تعلیم ہے جو ہر پیغمبر نے پیش کی اور یہی تعلیم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی پیش کی تھی۔ یہی صورتحال دوسرے مقامات میں بھی پیش آئی اصل کتاب چونکہ باقی نہیں رہی اور ترجموں میں بات کو کچھ سے کچھ بنادیا گیا۔ اس آیت کریمہ میں اسی گمراہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ان کے پیش رو گمراہوں نے ان کے لیے کفر و ضلالت کا جو گورکھ دھندہ تیار کیا ہے یہ آنکھ بند کرکے اسی کی تقلید کیے جارہے ہیں۔ اس کے بعد نہایت سخت جملہ فرمایا کہ اللہ انھیں ہلاک کرے یہ ایک لعنت کا کلمہ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی رحمت سے دور ہوچکے ہیں اور جب کوئی قوم رحمت سے محروم ہوتی ہے تو پھر ان کی عقلیں یا تو کام نہیں کرتیں اور یا غلط رخ پر کرتی ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ذرا دیکھو ان کی عقلیں کہاں الٹی ہوئی جارہی ہیں۔ ایک سیدھی سے بات کو سمجھنے سے عاجز ہوگئی ہیں کہ خالق و مخلوق میں توالد وتناسل کا سلسلہ کیسے قائم ہوسکتا ہے ؟ اور اللہ پر ایمان لانے والے اس طرح کے لایعنی تصورات کے حامل کیسے ہوسکتے ہیں ؟
Top