Ruh-ul-Quran - Ash-Sharh : 4
وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ
وَ : اور رَفَعْنَا : ہم نے بلند کیا لَكَ : آپ کے لئے ذِكْرَكَ : آپ کا ذکر
اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کردیا
وَرَفَعْنَا لَـکَ ذِکْرَکَ ۔ (النشرح : 4) (اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کردیا۔ ) آپ کے نام اور آپ کے لائے ہوئے دین کا چار دانگ عالم میں چرچاکردیا جس زمانہ میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے کوئی شخص سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ کبھی ایسا ممکن بھی ہوسکتا ہے کیونکہ اس وقت نبی کریم ﷺ چند ساتھیوں کے ہمراہ چھپ کر نمازیں ادا کررہے تھے۔ آپ کا چرچا اور آپ کا آوازہ وہ بھی مخالفانہ انداز میں مکہ کی حدود تک محدود تھا۔ اہل مکہ کی پوری کوشش تھی کہ باہر سے آنے والا کوئی شخص آپ سے ملنے نہ پائے تاکہ آپ کی دعوت باہر نہ پہنچے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان حالات میں دشمنوں کو اس کا ذریعہ بنادیا۔ حج کے موقع پر تمام عرب سے لوگ مکہ معظمہ میں جمع ہوتے تھے۔ اس زمانہ میں کفار کے وفود حاجیوں کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور لوگوں کو خبردار کرتے کہ یہاں ایک خطرناک شخص محمد ﷺ نام کا ہے جو لوگوں پر جادو کردیتا ہے جس کے نتیجے میں ہر گھر میں ایک لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ باپ بیٹے سے الجھتا ہے اور بیٹا باپ سے۔ ماں بیٹی سے الگ ہوجاتی ہے اور بیٹی ماں سے۔ خاندان کا شیرازہ بکھرتا جارہا ہے۔ ہم تو ایک مصیبت میں مبتلا ہیں، تم اس آدمی سے بچ کے رہنا تاکہ اس کا اثر تمہارے قبیلوں تک نہ پہنچ سکے۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرب کے گوشے گوشے میں آپ کا نام پہنچ گیا۔ اور تمام قبائل میں آپ کی دعوت کو جاننے کے لیے سرگوشیاں شروع ہوگئیں۔ لوگوں میں یہ خواہش توانا ہونے لگی کہ معلوم تو کیا جائے کہ آخر وہ شخص کیا کہتا ہے۔ اس طرح سے آپ کی دعوت اور آپ کا پیغام دور دراز قبیلوں میں پہنچنا شروع ہوگیا۔ پھر جیسے جیسے لوگوں کو آپ کے اخلاق اور آپ کی سیرت و کردار کا حال معلوم ہوا اور بعض لوگوں نے چھپ چھپ کر آپ کی دعوت کے بارے میں آگاہی حاصل کی، آپ سے قرآن کریم سنا تو وہ ایمان کی دولت لے کر اپنے قبیلوں میں پہنچے۔ پھر ہجرت کے بعد اس دعوت کی اشاعت میں اور تیزی آئی۔ اب کوئی قبیلہ ایسا نہ رہ گیا جس کا کوئی نہ کوئی آدمی اسلام کی دعوت سے متأثر نہ ہوا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک عجیب واقعہ یہ ہوا کہ ہجرت سے پہلے تو صرف مشرکینِ مکہ ہی رسول اللہ ﷺ کو بدنام کرنے میں سرگرم تھے اور اس طرح سے آپ کی شہرت پھیل رہی تھی، لیکن ہجرت کے بعد منافقین اور یہود بھی اس کام میں شریک ہوگئے اور اس طرح سے حضور کے نام کو اور شہرت ملی اور ساتھ ہی ساتھ مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست جو خدا پرستی، خدا ترسی، زہدوتقویٰ ، طہارتِ اخلاق، حُسنِ معاشرت، انسانی مساوات، جودوکرم، غریبوں کی خبر گیری، عہد و پیمان کی پاسداری اور معاملات میں راست بازی کا عملی نمونہ پیش کررہی تھی اس کے اثرات بھی روز بروز پھیلنے لگے اور دلوں کی تسخیر کا کام آگے بڑھنے لگا، جس کا نتیجہ چند ہی سالوں میں یہ نکلا کہ ہر جگہ اسلام غالب آتا گیا، کفر مغلوب ہوتا گیا اور ہر جگہ مسلمانوں نے اپنی درخشاں سیرت و کردار کے نقوش چھوڑے۔ مکہ جیسا مرکزی شہر سرنگوں ہوگیا۔ دس سال کے اندر آنحضرت ﷺ کا نام نامی اور آپ کا پیغامِ گرامی اس طرح عرب بھر میں پھیلا کہ اس کا گوشہ گوشہ اشہدان محمد رسول اللہ کی صدا سے گونج اٹھا۔ اور پھر دینی نقطہ نگاہ سے اللہ تعالیٰ نے اس رفع ذکر کا جو انتظام فرمایا اس سلسلے میں حضرت ابوسعید خدری ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اَتَانِیْ جِبْرَئِیْلُ عَلَیِہِ السَّلاَمُ وَقَالَ اِنَّ رَبَِّک یَقُوْلُ اَتَدْرِیْ کَیْفَ رَفَعْتُ ذِکْرَکَ قُلْتُ اللّٰہُ تَعْالیٰ اَعْلَمُ قَالَ اِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِیْ ۔ ” حضرت جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے اور کہا، آپ کا رب کریم پوچھتا ہے کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے آپ کے ذکر کو کس طرح بلند کیا ہے، میں نے جواب دیا اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کے رفع ذکر کی کیفیت یہ ہے کہ جہاں میرا ذکر کیا جائے گا وہاں آپ کا بھی میرے ساتھ ذکر کیا جائے گا۔ “ علامہ آلوسی فرماتے ہیں اور اس سے بڑھ کر رفع ذکر کیا ہوسکتا ہے کہ کلمہ شہادت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب کا نام ملا دیا، حضور کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا، ملائکہ کے ساتھ آپ پر درود بھیجا اور مومنوں کو درودپاک پڑھنے کا حکم دیا اور جب بھی خطاب کیا معزز القاب سے کیا، پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی آپ کا ذکرخیر فرمایا، تمام انبیاء اور ان کی امتوں سے وعدہ لیا کہ وہ آپ پر ایمان لے آئیں۔ آج دنیا کا کوئی آباد ملک ایسا نہیں جہاں روزوشب میں پانچ بار حضور کی رسالت کا اعلان نہ ہورہا ہو۔ علاوہ ازیں نمازوں میں آپ پر دورد بھیجا جاتا ہے، جمعوں کے خطبوں میں آپ کا ذکر خیر کیا جاتا ہے، پانچ مرتبہ اذان میں باآوازِبلند آپ کی رسالت کا اعلان کیا جاتا ہے اور سال کے بارہ مہینوں میں سے کوئی دن اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے کوئی وقت ایسا نہیں جب روئے زمین میں کسی نہ کسی جگہ حضور کا ذکرمبارک نہ ہورہا ہو۔ حیرت ہوتی ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے کوئی شخص اس کا تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ اس شان سے آپ کا ذکر بلند ہوگا۔ حضور کے سوانح پر جتنی کتابیں اپنوں اور بیگانوں نے لکھی ہیں دنیا کے کسی نبی، مصلح، فاتح اور سلطان کے بارے میں نہیں لکھی گئیں۔ حتیٰ کہ دشمنوں نے بھی آپ کی عظمت کو تسلیم کیا۔ جن لوگوں نے آپ کو نبی تسلیم نہیں کیا آپ کے ہمہ گیر اثرات کو محسوس کرتے ہوئے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا آدمی قرار دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات کو آج جھٹلانے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوسکتی کہ آپ کے سوا دنیا میں اور کوئی نہیں۔ وہ جس کا ذکر ہوتا ہو زمینوں آسمانوں میں فرشتوں کی دعائوں میں موذن کی اذانوں میں
Top