Tafseer-e-Saadi - Al-Maaida : 66
وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَكٌ وَّ لَاۤ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْۤ اَعْیُنُكُمْ لَنْ یُّؤْتِیَهُمُ اللّٰهُ خَیْرًا١ؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ١ۖۚ اِنِّیْۤ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ
وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لَكُمْ : تمہیں عِنْدِيْ : میرے پاس خَزَآئِنُ اللّٰهِ : اللہ کے خزانے وَ : اور لَآ اَعْلَمُ : میں نہیں جانتا الْغَيْبَ : غیب وَ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا اِنِّىْ : کہ میں مَلَكٌ : فرشتہ وَّ : اور لَآ اَقُوْلُ : میں نہیں کہتا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کو جنہیں تَزْدَرِيْٓ : حقیر سمجھتی ہیں اَعْيُنُكُمْ : تمہاری آنکھیں لَنْ يُّؤْتِيَهُمُ : ہرگز نہ دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ خَيْرًا : کوئی بھلائی اَللّٰهُ : اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : جو کچھ فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : ان کے دلوں میں اِنِّىْٓ : بیشک میں اِذًا : اس وقت لَّمِنَ الظّٰلِمِيْنَ : البتہ ظالموں سے
میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ اور نہ ان لوگوں کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ خدا ان کو بھلائی (یعنی اعمال کی جزائے نیک) نہیں دیگا جو انکے دلوں میں ہے اسے خدا خوب جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں تو بےانصافوں میں ہوں۔
(ولا اقول لکم عندی خزائن اللہ ) ” اور میں تم سے نہیں کہتا ہے کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں “ یعنی میری انتہا یہ ہے کہ میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہوں، میں تمہیں خوشخبری سناتا ہوں اور تمہیں برے انجام سے ڈراتا ہوں، اس کے علاوہ میرے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے نہیں ہیں کہ میں ان میں تصرف کروں جس کو چاہوں عطا کروں اور جس کو چاہوں محروم کر دوں۔ (ولا اعلم الغیب) ” اور میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں “ کہ میں تمہارے سینے کے بھیدوں اور تمہارے ” رازدروں “ کے بارے میں تمہیں آگاہ کرسکوں۔ (ولا اقول انی ملکٌ) ’ اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ “ یعنی میں اپنے مرتبہ سے بڑھ کر کسی مرتبہ کا دعویٰ نہیں کرتا۔ نہ میں اس کے سوا کسی منزلت کا دعویٰ کرتا ہوں جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے فائز کیا ہے اور نہ میں لوگوں کے بارے میں اپنے ظن اور گمان کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہوں۔ (ولا اقول للذین تردری اعینکم) ” اور نہ میں کہتا ہوں کہ جو لوگ تمہاری آنکھوں میں حقیر ہیں “ یعنی وہ کمزور اہل ایمان جن کو کافر سردار ان قوم حقیر سمجھتے تھے۔ (لن یوتیھم اللہ خیراً اللہ اعلم بما فی انفسھم) ” اللہ ان کو ہرگز بھلائی نہ دے گا۔ اللہ خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں ہے “ اگر وہ اپنے ایمان میں سچے ہیں تو ان کے لئے خیر کثیر ہے اور اگر وہ اپنے دعوائے ایمان میں جھوٹے ہیں تو ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ (انی اذاً ) ” بیشک میں تب “ یعنی اگر میں نے تم سے اس بارے میں کچھ کہا جس کا ذکر پیچھے گزر چکا ہے (لمن الظلمین) ” ظالموں میں سے ہوں گا “ ، نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو اس بات سے مایوس کردینا ہے کہ وہ کمزور اہل ایمان کو اپنے سے دور کریں یا ان کو ناراض کرلیں اور اپنی قوم کو ایسے طریقوں سے سمجھانے کی کوشش ہے جو ایک انصاف پسند شخص کو سمجھنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
Top