Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 29
وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا
وَاِذَآ : اور جب اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اَنْ نُّهْلِكَ : کہ ہم ہلاک کریں قَرْيَةً : کوئی بستی اَمَرْنَا : ہم نے حکم بھیجا مُتْرَفِيْهَا : اس کے خوشحال لوگ فَفَسَقُوْا : تو انہوں نے نافرمانی کی فِيْهَا : اس میں فَحَقَّ : پھر پوری ہوگئی عَلَيْهَا : ان پر الْقَوْلُ : بات فَدَمَّرْنٰهَا : پھر ہم نے انہیں ہلاک کیا تَدْمِيْرًا : پوری طرح ہلاک
اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ہوا تو وہاں کے آسودہ لوگوں کو (فواحش) پر مامور کردیا، تو وہ نافرمانیاں کرتے رہے، پھر اس پر (عذاب کا) حکم ثابت ہوگیا اور ہم نے اسے ہلاک کر ڈالا
آیت نمبر 16 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ جب کبھی وہ کسی ظالم بستی کو ہلاک کرنا اور عذاب کے ذریعے سے اس کا استیصال کرنا چاہتا ہے تو وہ اس میں رہنے والے خوشحال لوگوں کو حکم دیتا ہے۔۔۔ یعنی کوئی و قدرتی حکم۔۔۔ وہ اس میں نافرمانیاں کرتے ہیں اور ان کی سرکشی بڑھ جاتی ہے۔ (فحق علیھا القول) ، ، تب ثابت ہوجاتی ہے ان پر بات ، ، یعنی کلمہ، عذاب، جسے کوئی نہیں ٹال سکتا۔ (فد مرنھا تدمیراً ) ، ، پس اس بستی کو ہم ہلاک کر کے رکھ دیتے ہیں۔ ، ، نوح علیہ اسلام کی قوم کے بعد بہت سی قوموں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا، مثلاً عاد، ثمود اور قوم لوط وغیرہ۔ یہ وہ قومیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے سزا دی کیونکہ جب ان کی بغاوت بہت زیادہ ہوگئی اور ان کا کفر بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا بڑا عذاب نازل کردیا۔ (کفیٰ بربک بذنوب عبادہ خبیراً بصیراً ) ، ، اور کافی ہے آپ کا رب اپنے بندوں کے گناہوں کو جاننے والا دیکھنے والا۔ ، ، پس بندوں کو اس کی طرف سے کسی ظلم کا خوف نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صرف ان کے اپنے اعمال کی سزا دیتا ہے۔
Top