Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 29
قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ یَعْلَمْهُ اللّٰهُ١ؕ وَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
قُلْ : کہ دیں اِنْ : اگر تم تُخْفُوْا : چھپاؤ مَا : جو فِيْ : میں صُدُوْرِكُمْ : تمہارے سینے (دل) اَوْ : یا تُبْدُوْهُ : تم ظاہر کرو يَعْلَمْهُ : اسے جانتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَيَعْلَمُ : اور وہ جانتا ہے مَا : جو فِي : میں السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْرٌ : قادر
ان لوگوں سے کہہ دو تمہارے دلوں کے اندر جو کچھ ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو ، ہر حال میں اللہ اسے خوب جانتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اس پر روشن ہے اس کی قدرت کے احاطہ سے کوئی چیز باہر نہیں ہے
انجام کار انسان کو اپنے کیے کا جواب دہ ہونا ہے وہ بھی علم وخبیر کے سامنے : 74: یہ بات ہر وقت اور ہر آن یاد رہنی چاہیے کہ اس دنیا کی زندگی بالکل عارضی ہے اور ہر ایک انسان کو اپنے کیے ہوئے کاموں کا اپنے مالک حقیقی کے سامنے جوابدہ ہونا ہے لہٰذا اس کے احکام کی ظاہری اور باطنی ہر مخالفت سے باز رہنا چاہیے۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جو بذات الصدور ہے اور وہ سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے۔ چناچہ ارشاد الٰہی ہے : مَنْ کَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىِٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰكِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ 1ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.(النمل 16 : 106) ” جو کوئی ایمان لانے کے بعد پھر اللہ سے منکر ہوا اور اس کا دل اس انکار پر رضامند ہوگیا پھر ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ “ مگر ہاں ! جو کوئی کفر پر مجبور کیا جائے اور اس کا دل اندر سے ایمان پر مطمئن ہو تو ایسے لوگ مواخذہ سے بری ہوں گے اگرچہ یہ بھی کوئی خوبی کی بات نہیں۔ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” مسلمانو ! جب کافروں کے لشکر سے تمہاری مڈ بھیڑ ہوجائے تو انہیں پیٹھ نہ دکھاؤ یعنی مقابلہ سے بھاگ نہ جاؤ بلکہ سینہ سپر ہو کر مقابلہ کرو اور جو کوئی ایسے موقع پر پیٹھ دکھائے گا تو سمجھ لو کہ وہ خدا کے غضب میں آگیا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہوا اور جس کا ٹھکانہ دوزخ ہوا تو اس کا کیا ہی برا ٹھکانہ ہے مگر ہاں ! جو کوئی لڑائی کی مصلحت سے ہٹ جائے یا اپنے گروہ سے کسی کے پاس جگہ لینی چاہے یعنی جماعت سے الگ ہوگیا ہو تو جماعت سے مل کر لڑنا چاہے تو اس میں مضائقہ نہیں۔ “ (الانفال 8:16 , 15) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے : ” اور اپنی لونڈیوں کو کہ وہ پاک دامن رہنا چاہتی ہیں محض دنیا کے فائدے کے لیے حرام کاری پر مجبور نہ کرو جو انہیں مجبورکرے گا وہ اپنے آپ کو حالت بےبسی میں پائیں گے تو ایسی حالت میں جو گناہ ہے وہ سارے کا سارا مجبور کرنے والوں پر ہے اور لونڈیاں رحمت سے مایوس نہ ہوجائیں اللہ بخشنے والا اور نہایت ہی پیار کرنے والا ہے۔ “ (النور 24 : 33) اللہ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں اس کے لیے چھپا اور ظاہر برابر ہے : 75: گزشتہ آیت میں معاندین و مخالفین اسلام کا ذکر تھا اور اہل اسلام کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ انہیں اپناوی و دوست نہ بنائیں اس آیت میں مخالفین اسلام کو مخاطب کر کے فرمایا جارہا ہے کہ تم اپنی خفیہ تدابیر کو جو اسلام کی بیخ کنی کے لیے کر رہے ہو اپنے دلوں کے اندر مخفی رکھو اور خواہ ان کو ظاہر کرو یعنی خواہ پوشیدہ طور پر دشمنی کرو یا ظاہر طور پر اللہ تعالیٰ کو سب علم ہے کیونکہ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ یاد رکھو کہ وہ پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف تمہاری کسی تدبیر کو بھی کارگر نہ ہونے دے گا بلکہ یقیناً وہ اس کی سزا بھی تمہیں دے گ۔ یہ گویا اعلان ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اعلان کرایا جارہا ہے خود پیغمبر اسلام ﷺ کی زبان اقدس سے تاکہ معاندین و مخالفین مزید چوکنے ہو کر جو کچھ کرنا چاہتے ہیں یا وہ جو کچھ وہ کرسکتے ہیں پورا زور لگا کر کرلیں تاکہ ان کو کوئی پچھتاوا باقی نہ رہے اور دنیانے دیکھ لیا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ سو فیصدی پورا ہوا۔ اس سے مخالفین کو سمجھ لینا چاہیے تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ کے رسول ہیں لیکن نصیحت پکڑنے کے سو دلائل موجود ہوں نصیحت تو پھر بھی وہیں پکڑیں گے جو نصیح تحاصل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہ دارالعمل ہے اور اس کے لیے انسانی سعی و کوشش لازم کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا زمانہ تو ایسا تھا کہ اس وقت مخالفین تقریباً علی الاعلان ہی دشمن تھے سوائے منافقین کے جو پردہ میں رہ کر مخالفت کر رہے تھے اس لیے مخفی دشمنی میں ان کی طرف ہی اشارہ ہے جو آج بھی مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی دوستی کا دم بھرتے ہیں مگر درحقیقت وہ ہر وقت ایسیا تدابیر کے سوچنے میں مصروف ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کی بےچینی بڑھے اور ان کی بیخ کنی ہو۔ کاش کہ آج بھی مسلمان اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی مخفی تدبیروں کا وہی حشرکرے گا جو اس وقت ان کی کھلی تدابیر کا کیا تھا۔
Top