Tafseer-e-Saadi - Al-Qasas : 75
وَ نَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِیْدًا فَقُلْنَا هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوْۤا اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰهِ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠   ۧ
وَنَزَعْنَا : اور ہم نکال کر لائینگے مِنْ : سے كُلِّ اُمَّةٍ : ہر امت شَهِيْدًا : ایک گواہ فَقُلْنَا : پھر ہم کہیں گے هَاتُوْا : تم لاؤ (پیش کرو) بُرْهَانَكُمْ : اپنی دلیل فَعَلِمُوْٓا : سو وہ جان لیں گے اَنَّ : کہ الْحَقَّ : سچی بات لِلّٰهِ : اللہ کی وَضَلَّ : اور گم ہوجائیں گی عَنْهُمْ : ان سے مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : جو وہ گھڑتے تھے
اور ہم ہر ایک امت میں سے گواہ نکالیں گے پھر کہیں گے کہ اپنی دلیل پیش کرو تو وہ جان لیں گے کہ سچ بات خدا کی ہے اور جو وہ افترا کیا کرتے تھے ان سے جاتا رہے گا
آیت 75 جس روز اللہ تعالیٰ مشرکین کو اور ان لوگوں کو۔۔۔ جو غیر اللہ کو اس کا ہمسر ٹھہراتے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ الوہیت میں غیر اللہ کا حصہ ہے اور ان کے یہ خود ساختہ معبود عبادت کے مستحق ہیں اور نفع و نقصان دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔۔۔ پکارے گا۔ پس جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ مشرکین کی جسارت، ان کے زعم کاذب اور ان کی خظد اپنے آپ کی تکذیب کو ظاہر کرنا چاہے گا۔ (ینادیھم فیقول این شرکاء ی الذین کنتھم تزعمون) ” تو ان کو پکار کر پوچھے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کو تم ” شریک سمجھتے تھے “۔ یہ نفس امر میں شریک نہیں بلکہ ان کے زعم باطل کے مطابق شریک ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےُ (وما یتبع الذین یدعون من دون اللہ شرکاء ان یتبعون الا الظن و ان ھم الا یغرصون) (یونس : 01/66) ” اور وہ لوگ جو اللہ کے سوا اپنے خود ساختہ شریکوں کو پکارتے ہیں وہ تو محض اپنے وہم و گمان کے پیرو ہیں اور وہ صرف قیاس آرائیاں کر رہے ہیں “۔ جب یہ مشرکین اور ان کے معبود ان باطل اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ (من کل امۃ شھیدا) ” ہر امت میں سے ایک گواہ “ یعنی جھٹلانے والی ہر امت میں سے ایک گواہ کھڑا کرے گا جو دنیا میں ان کے کرتوتوں، ان کے شرک اور ان کے اعتقادات پر گواہی دے گا اور یہ منتخب لوگ ہوں گے یعنی ہم جھٹلانے والوں کے سرداروں میں سے کچھ لوگوں کو منتخب کرلیں گے جو اپنی طرف سے اور اپنے بھائیوں کی طرف سے جھگڑیں گے کیونکہ وہ ایک ہی راستے پر چلتے رہے ہیں اور جب وہ محاکمہ کے لئے سامنے آئیں گے (فقلنا ہاتوا برھانکم) ” تو ہم (ان سے) کہیں گے اپنی دلیل لاؤ “ یعنی اپنے شرک کی صحت پر حجت وبرہان کہ آیا ہم نے تمہیں اس شرک کا حکم دیا ؟ کیا میرے رسولوں نے تمہیں اس کا حکم دیا ؟ یا اس شرک کے جواز کے بارے میں تم نے میری کتابوں میں کچھ لکھا ہوا پایا ؟ کیا ان خود ساختہ شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو الوہیت کا مستحق ہو ؟ کیا یہ معبود تمہیں کوئی فائدہ دے سکتے ہیں ؟ یا تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ہٹانے میں تمہارے کوئی کام آسکتے ہیں ؟ اگر ان میں کوئی اہلیت ہے تو وہ یہ کام کر دیکھیں وہ تم سی عذاب الٰہی کو دور کریں اگر وہ ایسا کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ (فعلموا) ” تب وہ جان لیں گے “ اپنے قول کے بطلان و فساد کو اور انہیں یہ بھی معلوم ہوجائے گا (ان الحق للہ) ” کہ حق اللہ ہی کے لئے ہے “ خصومت ان کی طرف رخ کرلے گی۔ ان کی حجت ناکام اور اللہ تعالیٰ کی حجت غالب آجائے گی۔ (وصل عنھم ماکانو یفترون) ” جو جھوٹ اور بہتان انہوں نے گھڑا تھا سب مضمحل، ناپید اور معدوم ہوجائے گا “۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں انصاف کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف اسی شخص کو سزا دی ہے جو اس کا مستحق اور اہل ہے۔
Top