Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 38
وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَیَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ١۫ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَ كَانُوْا مُسْتَبْصِرِیْنَۙ
وَعَادًا : اور عاد وَّثَمُوْدَا : اور ثمود وَقَدْ : اور تحقیق تَّبَيَّنَ : واضح ہوگئے ہیں لَكُمْ : تم پر مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ : ان کے رہنے کے مقامات وَزَيَّنَ : اور بھلے کر دکھائے لَهُمُ : ان کے لیے الشَّيْطٰنُ : شیطان اَعْمَالَهُمْ : ان کے اعمال فَصَدَّهُمْ : پھر روک دیا انہیں عَنِ : سے السَّبِيْلِ : راہ وَكَانُوْا : حالانکہ وہ تھے مُسْتَبْصِرِيْنَ : سمجھ بوجھ والے
اور عاد اور ثمود کو بھی (ہم نے ہلاک کردیا) چناچہ ان کے (ویران گھر) تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کو آراستہ کر دکھائے اور انکو (سیدھے) راستے سے روک دیا حالانکہ وہ دیکھنے والے (لوگ) تھے
آیت 38 اور ہم نے عاد وثمود کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا آپ کو ان کا قصہ معلوم ہے۔ اگر تم ان کے گھروں اور ان کے آثار کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرو جن کو وہ چھوڑ گئے ہیں تو تم پر کچھ حقیقت واضح ہوجائے گی۔ ان کے رسول ان کے پاس واضح دالائل لے کر آئے جو بصیرت کے لئے مفید تھے مگر انہوں نے ان کو جھٹلایا اور ان کے ساتھ جھگڑا کیا۔ (وزین لھم الشیطن اعمالھم) ” اور شیطان انبیاء لے کر آئے ہیں۔ قارون ‘ فرعون اور ہامان کا یہی رویہ تھا جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران ( علیہ السلام) کو واضح دالائل اور روشن براہین کے ساتھ مبعوث کیا تو انہوں نے ان دلائل کے سامنے سر تسلیم خم نہ کیا بلکہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آئے اور انہیں ذلیل کیا اور حق کو تکبر کے ساتھ ٹھکرا دیا مگر جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تو وہ اس سے بچنے پر قادر نہ تھے۔ (وما کانوا سبقین) وہ اللہ سے بھاگ کر کہیں جا نہ سکے اور انہیں اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا پڑا۔ (فکلا) ” پس سب کو۔ “ یعنی انبیاء کی تکذیب کرنے والی ان تمام قوموں کو ( اخذنا بذنبہ) ہم نے ان کے گناہ کی مقدار اور اس گنہ سے منسبت والی سزا کے ذریعے سے پکڑ لیا۔ ( فمنھم من ارسلنا علیہ حاصبا) ” پس ان ان میں کچھ تو ایسے تھے جن پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا۔ “ یعنی ہم نے ان پر ایسا عذاب نازل کیا جس میں ان کو پتھر مار کر ہلاک کیا جیسے قوم عاد اللہ تعالیٰ نے اس پر تباہ کن آندھی بھیجی اور (سخرھا علیھم سبع لیال وثمنیۃ ایام حسوبا فتری القوم فیھا صرعی کانھم اعجاز نخل خاویۃ) (الحاقۃ : 96؍7) ” اس ہوا کو سات رات اور آٹھ دن تک لگاتا چلائے رکھا تو تو ان نافرمان لوگوں کو اس میں اس طرح مرے پڑے ہوئے دیکھتا ہے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں۔ “ (ومنھم من اخذتہ الصیحۃ) ” اور کچھ ایسے تھے جن کو چنگھاڑنے آپکڑا جیسے صالح ﷺ کی قوم (ومنھم من خسفنا بہ الرض) ” اور کچھ ایسے تھے جن کو ہم نے زمین میں دھنسادیا۔ جیسے قارون (ومنھم اغرقنا) ” اور کچھ ایسے تھے جن کو ہم نے غرق کردیا۔ “ جیسے فرعون ‘ ہامان اور ان کے لشکر ( وماکان اللہ) یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے مناسب اور اس کے لائق نہیں کہ وہ اپنے کمال عدل اور مخلوق سے کامل بےنیازی کی بنا پر بندوں پر ظلم کرتا ( والکن کانوا انفسھم یظلمون) ” لیکن وہ اپنے ہی نفوس پر ظلم کرتے تھے۔ “ انہوں نے اپنے نفوس کو ان کے حقوق سے محروم کردیا۔ کیونکہ نفوس اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ ان مشرکین نے ان کو ایسے کاموں میں میں استعمال کیا جن کے لئے وہ پیدا نہیں کئے گئے انہوں نے ان کو شہوات میں مشغول کر کے سخت تقصان پہنچایا جبکہ وہ اں گمان باطل میں مبتلا رہے کہ وہ ان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
Top