Tafseer-e-Saadi - Al-A'raaf : 25
وَ مَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ١ؕ وَ مَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰى عَقِبَیْهِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ وَ سَیَجْزِی اللّٰهُ الشّٰكِرِیْن
وَمَا : اور نہیں مُحَمَّدٌ : محمد اِلَّا : مگر (تو) رَسُوْلٌ : ایک رسول قَدْ خَلَتْ : البتہ گزرے مِنْ قَبْلِهِ : ان سے پہلے الرُّسُلُ : رسول (جمع) اَفَا۟ئِنْ : کیا پھر اگر مَّاتَ : وفات پالیں اَوْ : یا قُتِلَ : قتل ہوجائیں انْقَلَبْتُمْ : تم پھر جاؤگے عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ : اپنی ایڑیوں پر وَمَنْ : اور جو يَّنْقَلِبْ : پھر جائے عَلٰي عَقِبَيْهِ : اپنی ایڑیوں پر فَلَنْ يَّضُرَّ : تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ بھی وَسَيَجْزِي : اور جلد جزا دے گا اللّٰهُ : اللہ الشّٰكِرِيْنَ : شکر کرنے والے
اور محمد ﷺ تو صرف (خدا کے) پیغمبر ہیں ان سے پہلے بھی بہت پیغمبر ہو گزرے ہیں بھلا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ (یعنی مرتد ہوجاؤ گے) اور جو الٹے پاؤں پھرجائے گا تو خدا کا کچھ نقصان نہیں کرسکے گا اور خدا ‌شکر گزاروں کو (بڑا) ثواب دے گا۔
آیت 144-145 (وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل) یعنی وہ رسولوں میں سے کوئی انوکھا رسول نہیں ہیں بلکہ وہ ان رسولوں کی جنس سے ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں اور ان کی ذمہ داری اپنے رب کا پیغام پہنچانا اور اس کے احکام کا نفاذ تھا۔ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ تھے اور نہ ان کی بقاء اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کے لئے کوئی شرط تھی۔ بلکہ تمام امتوں پر یہ چیز فرض تھی کہ وہ ہر وقت اور ہرحال میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم) ” کیا پس اگر ان کو موت آگئی یا قتل کردیئے گئے، تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ “ یعنی یہ نبی ایمان اور جہاد وغیرہ کے جو احکام لے کر مبعوث ہوئے ہیں کیا تم ان کو ترک کر کے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ فرمایا : (ومن ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیاء) ” اور جو شخص الٹے پاؤں پھرجائے گا تو ہرگز نہ بگاڑے گا اللہ کا کچھ “ وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بےنیاز ہے اور وہ اپنے دین کو ضرو رقائم کرے گا اور اپنے مومن بندوں کو غلبہ عطا کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے الٹے پاؤں پلٹ جانے والوں کو زجر و توبیخ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مدح وثناء بھی کی جو اس کے رسول ﷺ کے ساتھ ثابت قدمی سے ڈٹے رہے اور انہوں نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی۔ فرمایا : (وسیجزی اللہ الشکرین) ” اور اللہ شکر گزار بندوں کو جزا دے گا “ اور شکر کے تقاضے اس کے بغیر ادا نہیں ہوتے کہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کی عبودیت اختیار کی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی راہنمائی فرمائی ہے کہ ان کے سربراہ کا مفقود ہونا خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو کسی بھی حالت میں ان کو ان کے ایمان یا کسی لازمہ ایمان سے نہ ہٹا دے مگر یہ تب ہی ممکن ہے کہ امور دین کے ہر شعبہ میں کچھ لوگوں کو تیار کیا جائے جو اس شعبہ میں برابر ہوں۔ ان میں سے ایک کی عدم موجودگی میں دوسرا اس کی جگہ لے لے۔ نیز اہل ایمان کا عمومی مقصد اقامت دین اور اس کے دفاع میں اپنی استطاعت کے مطابق جہاد ہونا چاہیے۔ ان کا مقصد ایک سربراہ کی جگہ دوسرے سربراہ کو لانا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی صورت میں ان کا معاملہ درست طریقے سے جاری رہ سکتا ہے اور دیگر تمام امور صحیح نہج پر چل سکتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں صدیق اکبر جناب ابوبکر اور دیگر اصحاب کرام کی فضیلت پر بھی سب سیب ڑی دلیل ہے، جنہوں نے رسول اللہ کے بعد مرتدین کے خلاف جنگ کی، کیونکہ وہ سادات اہل شکر میں شمار ہوتے ہیں۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے آگاہ فرمایا ہے کہ تمام نفوس اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضا و قدر سے اپنی اپنی اجل کے ساتھ معلق ہیں۔ پس جس کی تقدیر میں موت کا حتمی فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اسے بغیر کسی سبب کے بھی موت آ کر رہتی ہے اور اللہ تعالیٰ جس کو باقی رکھنا چاہے، تو پھر اگر موت کے تمام اسباب بھی جمع کیوں نہ ہوجائیں، یہ اسباب وقت مقررہ سے پہلے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ کر کے اس کو مقدر کردیا ہے اور اس کی موت کا وقت معین اس کی تقدیر میں لکھ دیا۔ (فاذا جآء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولایستقدمون) (الاعراف :33/8) ” جب ان کا وقت معین آجاتا ہے تو نہ وہ ایک گھڑی تاخیر کرسکتے ہیں اور نہ جلدی۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ لوگوں کو دنیا و آخرت کا وہی ثواب عطا کرتا ہے جس سے ان کے ارادے متعلق ہوتے ہیں۔ فرمایا : (ومن یردثواب الدنیا نوتہ منھا ومن یرد ثواب الاخرۃ نوتہ منھا) ” جو کوئی دنیا ہی میں اپنے اعمال کا بدلہ چاہتا ہے ہم اسے وہیں بدلہ دے دیتے ہیں اور جوئی اپنے اعمال کا بدلہ آخرت میں چاہتا ہے ہم اس کو آخرت میں اس کا بدلہ عطا کریں گے۔ “ فرمایا : (کلا نمد ھولآء وھولآء من عطآء ربک وما کان عطآء ربک محظورا، انظر کیف فضلنا بعضھم علی بعض وللاخرۃ اکبر درجت واکبر تفصیلا) (بنی اسرائیل :21-20/18) ” ہم ان سب کو تیرے رب کی عطا و بخشش سے مدد دیتے ہیں اور تیرے رب کی عطا و بخشش ممنوع اور روکی ہوئی نہیں ہے۔ دیکھ ہم نے کیسے ان کو ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور آخرت درجات کے اعتبار سے بہت بڑی اور فضیلت میں بہت بڑھ کر ہے۔ “ فرمایا : (وسنجزی الشکرین) ” اور ہم جزا دیں گے شکر کرنے والوں کو “ یہاں اللہ تعالیٰ نے جزا کا ذکر نہیں فرمایا تاکہ یہ اس جزا کی کثرت اور عظمت پر دلیل ہو اور یہ بھی بندے کو معلوم ہوجائے کہ یہ جزا قلت و کثرت اور حسن کے اعتبار سے شکر کی مقدار پر منحصر ہے۔
Top