Tafseer-e-Saadi - Aal-i-Imraan : 89
اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْا١۫ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جو لوگ تَابُوْا : توبہ کی مِنْ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس وَاَصْلَحُوْا : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
ہاں جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اپنی حالت درست کرلی تو خدا بخشنے والا مہربان ہے
اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کا ارتکاب کرے۔ پھر گمراہی میں آگے ہی آگے بڑھتا جائے ‘ ہایت کو چھوڑے رکھے ‘ ایسے شخص کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ یعنی اسے توبہ کی توفیق ہی نہیں ملتی جو قبول ہوسکے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں ڈھیل دیتا ہے تو وہ گمراہی میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ” اور ہم ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر دیں گے۔ جیسے یہ لوگ اس پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے “ اور فرمایا : ” جب وہ ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کردیے “ گناہوں سے گناہ پیدا ہوتے ہیں۔ خاص طور پر جو شخص سیدھا راستہ چھوڑ دے اور کفر عظیم کا ارتکاب کرے ‘ حالانکہ اس پر حجت قائم ہوچکی ہو ‘ اور اللہ نے اس کے لیے دلائل وبراہین کو واضح کردیا ہو۔ کیونکہ اس نے خود رب کی رحمت کے اسباب کو منقطع کرنے کی کوشش کی ‘ اور اپنے لیے توبہ کا دروازہ خود ہی بند کرلیا ‘ لہٰذا گمراہی ایسے ہی اوگوں میں محصور ہوگئی ہے۔ اللہ نے فرمایا : ” یہی لوگ گمراہ ہیں “ اس سے بڑی گمراہی کیا ہوسکتی ہے کہ انسان آنکھوں سے دیکھ کر سیدھی راہ کو ترک کر دے۔ یہ کافر اگر موت تک اپنے کفر پر قائم رہیں تو ان کے لیے ہلاکت اور ابدی بدنصیبی یقینی ہے ‘ انہیں کسی چیز سے فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسا شخص اگر زمین بھر سونا فدیہ دے کر اللہ کے عتاب سے بچنا چاہے تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ ہمیشہ درد ناک عذاب میں پڑا رہے گا۔ نہ کوئی اس کی سفارش کرے گا ‘ نہ مدد۔ نہ کوئی اس کی فریاد سنے گا ‘ نہ کوئی اللہ کے عذاب سے بچا سکے گا۔ یہ لوگ ہر خیر سے مایوس ہیں۔ ان کے لیے عذاب میں ہمیشہ کے لیے رہنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اللہ ہمیں ان کے حال سے محفوظ رکھے۔
Top