Tafseer-e-Saadi - Al-An'aam : 36
اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ١ؔؕ وَ الْمَوْتٰى یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَؐ
اِنَّمَا : صرف وہ يَسْتَجِيْبُ : مانتے ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَسْمَعُوْنَ : سنتے ہیں وَالْمَوْتٰى : اور مردے يَبْعَثُهُمُ : انہیں اٹھائے گا اللّٰهُ : اللہ ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے
بات یہ ہے کہ (حق کو) قبول وہی کرتے ہیں جو سنتے بھی ہیں اور مردوں کو تو خدا (قیامت ہی کو) اٹھائے گا۔ پھر اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے۔
آیت 36 اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے فرماتا ہے (انما یستجیب) ” بلا شبہ قبول کریں گے۔ “ آپ کی دعوت اور آپ کی رسالت پر صرف وہی لوگ لبیک کہیں گے اور آپ کے امرو نہی کے سامنے صرف وہی لوگ سر تسلیم خم کریں گے (الذین یمسمعون) ” جو سنتے ہیں۔ “ یعنی جو اپنے دل کے کانوں سے سنتے ہیں جو ان کو فائدہ دیتا ہے اور یہ عقل اور کان رکھنے والے لوگ ہیں۔ یہاں سننے سے مراد دل سے سننا اور اس پر لبیک کہنا ہے ورنہ مجرد کانوں سے سننے میں نیک اور بدسب شامل ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کی آیات کو سن کر تمام مکلفین پر اللہ تعالیٰ کی حجت قائم ہوگئی اور حق کو قبول نہ کرنے کا ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہا۔ (والموتی یبعثھم اللہ ثم الیہ یرجعون) ” اور مردوں کو زندہ کرے گا اللہ، پھر اس کی طرف وہ لائے جائیں گے۔ “ اس میں اس امر کا احتمال ہے کہ یہ معنی، مذکور بالا معنی کے بالمقابل ہوں۔ یعنی آپ کی دعوت کا جواب صرف وہی لوگ دیں گے جن کے دل زندہ ہیں، رہے وہ لوگ جن کے دل مرچکے ہیں، جنہیں اپنی سعادت کا شعور تک نہیں اور جنہیں یہ بھی احساسن ہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جو انہیں نجات دلائے گی تو ایسے لوگ آپ کی دعوت پر لبیک نہیں کہیں گے اور نہ وہ آپ کی اطاعت کریں گے۔ ان کے لئے وعدے کا دن تو قیامت کا دن ہے اس روز اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا، پھر وہ اس کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اس آیت کریمہ میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس کے ظاہری معنی مراد لئے جائیں۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ معاد کو متحقق کر رہا ہے کہ وہ قیامت کے روز تمام مردوں کو زندہ کرے گا، پھر ان کو ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہین کی ترغیب اور اس کا جواب نہ دینے پر ترہیب کو متضمن ہے۔ (وقالوا) ” اور کہتے ہیں۔ “ یعنی عناد کی وجہ سے رسول کی تکذیب کرنے والے کہتے ہیں : (لولا نزل علیہ ایۃ من ربہ) ” کیوں نہیں اتاری گئی اس پر کوئی نشانی اس کے رب کی طرف ؟ “ یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانیاں نازل کی جائیں جن کا انتخبا وہ اپنی فاسد عقل اور گھٹیا آراء کے ذریعے سے کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قول نقل فرمایا : (آیت) ” اور وہ کہتے ہیں کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ تم زمین سے ہمارے لئے چشمہ جاری نہ کردو، یا تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو اور اس باغ کے بیچوں بیچ نہریں جاری کرو یا جیسا کہ تم دعویٰ کیا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرا دو یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ۔ “ (قل) ان کا جواب دیتے ہوئے کہہ دیجیے ! (ان اللہ قادر علی ان ینزل ایۃ) ” یقیناً اللہ اس بات پر قادر ہے کہ کوئی نشانی اتارے دے “ اس کی قدرت ایسا کرنے سے قاصر نہیں اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ ہر چیز اس کے غلبہ کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے اور اس کی قدرت و تسلط کی اطاعت کئے ہوئے ہے (ولکن اکثرھم لایعلمون) ” لیکن ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے “ پس وہ اپنی جہالت اور عدم علم کی بنا پر ایسی نشانیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر وہ نشانیاں ان کے پاس آجائیں تو بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے اور پھر ان پر جلدی سے عذاب نازل کردیا جائے گا۔ جیسا کہ یہ سنت الٰہی ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ بایں ہمہ اگر ان کا مقصود وہ نشانیاں ہیں جو حق کو واضح کر کے راہ حق کو روشن کردیں تو جناب محمد مصطفیٰ ﷺ ہر قسم کی قطعی دلیل اور روشن برہان پیش کرتے ہیں جو اس حق پر دلالت کرتی ہیں جس کے ساتھ آپ ﷺ مبعوث ہوئے، کیونکہ بندہ دین کے ہر مسئلہ میں متعدد عقلی اور نقلی دلائل پاتا ہے کہ اس کے دل میں ادنیٰ سا شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ پس نہایت بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدیات اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور واضح دلائل کے ساتھ اس کی تائید کی، تاکہ جو کوئی ہلاک ہو دلیل کے ساتھ ہلاک ہو اور جو کوئی زندہ رہے، دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
Top