Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 36
اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ١ؔؕ وَ الْمَوْتٰى یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَؐ
اِنَّمَا : صرف وہ يَسْتَجِيْبُ : مانتے ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَسْمَعُوْنَ : سنتے ہیں وَالْمَوْتٰى : اور مردے يَبْعَثُهُمُ : انہیں اٹھائے گا اللّٰهُ : اللہ ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے
(ہدایت تو) وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں، رہے مردے تو انھیں بس اللہ ہی زندہ کر کے اٹھائے گا، پھر وہ سب اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے3
56 صدق و اخلاص باعث سرفرازی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہدایت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو سنتے ہیں کھلے دل، صاف نیت اور صحیح ارادے سے۔ اور حق و ہدایت کو اپنانے اور قبول کرنے کی غرض سے۔ اور جو اس کے بغیر سنتے ہیں وہ محروم رہتے ہیں۔ سو صدق و اخلاص باعث سرفرازی ہے ۔ وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقِ ۔ سو جو صحیح نیت سے سنتے ہیں وہ سمجھتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کو قبول حق کی توفیق وسعادت نصیب ہوتی ہے۔ اور جو صحیح نیت و ارادے سے نہیں سنتے، ان کو سمجھنے کی توفیق نہیں ملتی۔ اور ایسوں کا سننا نہ سننا برابر ہوتا ہے اور وہ محروم کے محروم ہی رہتے ہیں کہ ایسے لوگ دراصل صم، بکم، عمی کے مصداق ہوتے ہیں۔ اور یہ کان، آنکھ اور دل رکھنے کے باوجود اندھے، بہرے اور گونگے ہوتے ہیں۔ سو انسان کی محرومی اور سرفرازی کا تعلق دراصل اس کے اپنے اندر اور اپنے قلب و باطن سے ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 57 نور حق و ہدایت سے محروم لوگ حقیقت میں مردہ ہیں : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حق کو وہی لوگ قبول کرتے ہیں [ جو زندہ ہیں اور ] صحیح معنوں میں سنتے ہیں۔ رہے مردہ تو ان کو اللہ ہی زندہ کر کے اٹھائے گا۔ پھر ان سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹایا جائے کا۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جو لوگ حق کو سنتے مانتے ہیں وہ زندہ نہیں، مردہ ہیں۔ دل کے مردے جو ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہیں۔ اس سے مراد کافر ومنکر لوگ ہیں کہ وہ اگرچہ بظاہر زندہ انسانوں کی طرح دو ٹانگوں پر چلتے پھرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ مردہ ہیں۔ اور ان کے یہ جسم دراصل ان کی چلتی پھرتی قبریں ہیں۔ اس لیے یہ لوگ حق بات کو سننے سمجھنے اور اس کو اپنانے، اختیار کرنے سے قاصر ہیں۔ سو یہ اگرچہ بظاہر زندہ ہیں، بلکہ دنیاوی معاملات میں تو یہ بہت تیز ہیں، لیکن حقیقت میں یہ لوگ مردہ ہیں کہ ان کے دل نور ایمان و یقین سے محروم ہیں۔ اور یہ عقل و دل کے مردہ ہیں۔ اور اس تشبیہ سے یہ امر بھی واضح ہوجاتا ہے کہ مردے سنتے نہیں۔ کیونکہ یہ تشبیہ اسی صورت میں صحیح ہوسکتی ہے۔ مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی موقع پر کسی کو کچھ سنوا دے تو وہ اور بات ہے کہ وہ اس پر قادر ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ جیسے قلیب بدر کے موقع پر ہوا یا جیسے خفق نعلین والی حدیث سے ثابت ہوتا ہے وغیرہ۔ بہرکیف حق سے بےبہرہ و محروم یہ کفار واشرار مردہ ہیں۔ (طبری، قرطبی، مراغی، ابن کثیر، محاسن التاویل وغیرہ ) ۔ سو دلوں کی زندگی ایمان و یقین کے نور ہی سے ہے ورنہ موت ہے ۔ والعیاذ باللہ -
Top