Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 36
اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ١ؔؕ وَ الْمَوْتٰى یَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَیْهِ یُرْجَعُوْنَؐ
اِنَّمَا : صرف وہ يَسْتَجِيْبُ : مانتے ہیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَسْمَعُوْنَ : سنتے ہیں وَالْمَوْتٰى : اور مردے يَبْعَثُهُمُ : انہیں اٹھائے گا اللّٰهُ : اللہ ثُمَّ : پھر اِلَيْهِ : اس کی طرف يُرْجَعُوْنَ : وہ لوٹائے جائیں گے
تمہاری دعوت کا وہی جواب دے سکتے ہیں جو تمہاری پکار سنتے ہیں لیکن جو مردے ہیں انہیں تو اللہ ہی اٹھائے گا پھر اس کے حضور لوٹائے جائیں گے
آپ ﷺ کی پکار کا جواب وہی دیں گے جو سنتے ہیں ، مرے ہوئے کیا جواب دیں گے ؟ : 56: بات کو کون قبول کرتے ہیں ؟ وہی جو بات کو اس طرح سنتے ہیں جس طرح اس کے سننے کا حق ہے۔ پھر جو بات کو قبول نہیں کرتے انہوں نے کیا سنا ؟ کچھ بھی نہیں۔ کیوں ؟ اسلئے کہ انہوں نے جو سنا وہ ان سنا کردیا۔ زیر نظر آیت میں سنی ان سنی کردینے والوں کو ” مردے “ فرمایا گیا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ مردے سنتے نہیں ؟ یہ قرآن کریم کی تعلیم ہے۔ ہمارے علمائے گرامی قدر نے ” مردوں “ کو سننے والے ثابت کیا لیکن نہ سننے والوں کو ” مردے “ نہ مانا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ اس طرح وہ خود نہ سننے والے ثابت ہو کر ” مردے “ تصور ہوتے تھے۔ تحریر ہے کہ : ” بیشک پاک جانیں جب بدن کے علاقوں سے جدا ہوتی ہیں۔ عالم بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسے دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں۔ “ (بہار شریعت ص 58) ” مردے سنتے ہیں اور محبوبین کی وفات کے بعد مدد کرتے ہیں۔ “ (علم القرآن از احمد یار ص 189) ” یا علی یا غوث کہنا جائز ہے کیونکہ اللہ کے پیارے بندے برزخ میں سن لیتے ہیں۔ “ (نور اللہ قادری۔ فتاویٰ ص 527) ” حضور ﷺ کی زندگی اور وفات میں کوئی فرق نہیں۔ اپنی موت کو دیکھتے ہیں اور بعد ان کے حالات و نیات اور ارادے اور دل کی باتوں کو جانتے ہیں۔ یہ آپ ﷺ کو بالکل ظاہر ہیں۔ ان میں پوشیدہ نہیں۔ “ ( حیات النبی للکاظمی ص 104) زیر نظر آیت میں قرآن کریم نے ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ کہہ دی کہ وہ حق کو قبول توا س وقت کریں جب وہ حق کی آواز کو سنیں لیکن انہوں نے تو لگاتار انکار سے ان کانوں ہی کو بہرا کردیا ہے جو حق کی آواز سن سکتے ہیں پھر ایسی جہالت میں وہ ایمان کیونکر لائیں گے جب کہ وہ ” زندہ “ دکھائی دینے کے باوجود ” مر “ چکے ہیں۔ بھلا ” مردے “ کبھی سنتے ہیں۔ ہاں ! وہ جو ” مردے ہیں انہیں تو اللہ ہی اٹھائے گا پھر اسی کے حضور وہ لوٹائے جائیں گے۔ “ اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
Top