Tadabbur-e-Quran - Hud : 100
ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْقُرٰى نَقُصُّهٗ عَلَیْكَ مِنْهَا قَآئِمٌ وَّ حَصِیْدٌ
ذٰلِكَ : یہ مِنْ : سے اَنْۢبَآءِ الْقُرٰي : بستیوں کی خبریں نَقُصُّهٗ : ہم یہ بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ پر (کو) مِنْهَا : ان سے قَآئِمٌ : قائم (موجود) وَّحَصِيْدٌ : کٹ چکیں
یہ بستیوں کی کچھ سرگزشتیں ہیں جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں، ان میں سے کچھ تو قائم ہیں اور کچھ مٹ مٹا گئیں
آگے کا مضمون۔ آیات 100۔ 123:۔ اب آگے خاتمۂ سورة کی آیت ہیں۔ اس میں ان حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے جو ماضی کی سرگزشتوں کے اندر مضمر ہیں اور جن کو مخاطب کے سامنے لانے ہی کے لیے یہ سنائی گئی ہیں۔ ان کے اندر قریش کے لیے جو سبق ہیں ان کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کو ان سے جو تعلیم ملتی ہے اس کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات کی تلاوت فرمائیے۔ ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰي نَقُصُّهٗ عَلَيْكَ مِنْهَا قَاۗىِٕمٌ وَّحَصِيْدٌ۔ پچھلی سرگزشتوں کی طرف اشارہ : پیچھے جن قوموں کی سرگزشتیں سنائی گئی ہیں ان کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے نبی ﷺ کو اور آپ کے واسطہ سے آپ کی قوم کو توجہ دلائی کہ یہ سرگزشتیں ہم سنا رہے ہیں کہ ان سے تمہیں بھی قوت و حوصلہ حاصل ہو اور تمہاری قوم کے لوگ بھی ان سے سبق حاصل کریں۔ اس مضمون کو آگے آیت 120 میں اچھی طرح واضح فرما دیا ہے۔ مِنْهَا قَاۗىِٕمٌ وَّحَصِيْدٌ یعنی ان بستیوں میں سے بعض قائم ہیں جن کو دیکھ سکتے ہو اور بعض ان میں سے بالکل ملیا میٹ ہوگئیں۔ حصید، کٹی ہوئی فصل کو کہتے ہیں۔ یہاں یہ ان بستیون کے لیے استعمال ہوا ہے جو عذاب الٰہی سے یک قلم نیست و نابود ہوگئیں۔ قائم کی ایک مثال مصر ہے جس کے اندر سے فرعون اور اس کی قوم کو خدا نے نکالا اور لے جا کر سمندر میں غرق کردیا۔ مکان قائم رہ گئے۔ مکین ناپید ہوگئے۔ حصید سے مراد قوم ہود اور قوم لوط وغیرہ کی بستیاں ہیں جن کے مکان و مکین سب ناپید ہوگئے۔ صرف کسی کسی کے کچھ آثار اپنے مکینوں کی بدبختی کی داستانِ عبرت سنانے کے لیے رہ گئے۔ یہ بات قریش کو سنا کر اس لیے کہی گئی ہے کہ اگر وہ اپنی اس ضدم ضدا کی روش پر قائم ہیں تو لازماً انہیں ان دو فہرستوں میں سے کسی ایک میں اپنا نام لکھانا پڑے گا۔ ان کے اندر رسول کی بعثت کے بعد اب ان کا فیصلہ بھی لازماً ہونا ہے۔
Top