Tadabbur-e-Quran - Maryam : 3
اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّا
اِذْ : جب نَادٰى : اس نے پکارا رَبَّهٗ : اپنا رب نِدَآءً : پکارنا خَفِيًّا : آہستہ سے
جب اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا
تفسیر آیت 3 تا 4: إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا (3) قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا۔ اولاد کے لیے حضرت زکریا کی دعا اور اندازِ دعا : یہ حضرت زکریا کی دعا ہے جو انہوں نے فرزند کی ولادت کے لیے کی ہے۔ یہ دعا انہوں نے ہیکل میں، جیسا کہ آگے اشارہ آ رہا ہے، غالباً بحالتِ اعتکاف کی ہے۔ فرمایا کہ اس نے چپکے چپکے اپنے رب کو پکارا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کا راز و نیاز کے انداز میں ہونا اس کے اولین آداب میں سے بھی ہے اور اس کی قبولیت کے لیے بہترین سفارش بھی۔ درحقیقت یہی دعائیں ہوتی ہیں جو ریا اور نمائش سے بھی پاک ہوتی ہیں اور انہی کے اندر بندہ اپنے دل کے اصلی راز بھی کھولتا ہے۔ اس وجہ سے دعا کے اس ادب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ صرف اجتماعی دعائیں اس سے مستثنی ہیں۔ مؤثر تمہید : وَهَنَ الْعَظْمُ کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ میرا ظاہری جسم تو درکنار میرے تو اندر کی ہڈیاں تک کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ یہ حضرت زکریا نے عرض مدعا سے پہلے اس کے لیے تمہید استوار کی ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ایسی مؤثر تمہید استوار کی ہے کہ اگر سوء ادب پر محمول نہ کیجیے تو عرض کروں کہ یہ خدا کی رحمت پر کمند ڈال دینے والی تمہید ہے۔ حضرت زکریا نے ایک تو اپنے ضعف و ناتوانی کو سفارش میں پیش کیا۔ دوسرے اپنے ساتھ زندگی بھر اپنے رب کے معاملے کو۔ فرماتے ہیں کہ ارے رب میں کبھی تجھے پکار کے محروم نہیں رہا۔ غور کیجیے کہ جو سائل جس در سے کبھی محروم نہیں لوٹا ہے وہ اس پیری و ناتوانی میں، جب کہ اس کی ہڈیوں تک کی گود خشک ہوچکی ہے اس دروازے سے کس طرح محروم لوٹایا جائے گا۔
Top