Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ
مَثَلُهُمْ : ان کی مثال کَمَثَلِ : جیسے مثال الَّذِي : اس شخص اسْتَوْقَدَ : جس نے بھڑکائی نَارًا : آگ فَلَمَّا : پھر جب أَضَاءَتْ : روشن کردیا مَا حَوْلَهُ : اس کا اردگرد ذَهَبَ : چھین لی اللَّهُ : اللہ بِنُورِهِمْ : ان کی روشنی وَتَرَکَهُمْ : اور انہیں چھوڑدیا فِي ظُلُمَاتٍ : اندھیروں میں لَا يُبْصِرُونَ : وہ نہیں دیکھتے
ان لوگوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے لوگوں کے لیے آگ جلائی، جب آگ نے اس کے ارد گرد کو روشن کردیا تو اللہ نے ان کی روشنی سلب کرلی اور ان کو ایسی تاریکی میں چھوڑ دیا جس میں ان کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔
یہ تمثیل ایک ایسے شخص کی تمثیل ہے جس نے اندھیری رات میں لوگوں کو روشنی دکھانے کے لیے آگ جلائی۔ اس نے یہ کام بڑی محنت اور بڑے اہتمام کے ساتھ کیا یہاں تک کہ اس کا تمام گردوپیش منور ہو گیا۔ لیکن جن لوگوں کے لیے اس نے یہ محنت برداشت کی انہوں نے اس روشنی کی کوئی قدر نہیں کی۔ ان کی اس ناقدری کی سزا اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دی کہ ان کی روشنی سلب کرلی اور ان کو ایک ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے کے اندر چھوڑ دیا جہاں ہاتھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ پھر اس اندھیرے کے اوپر مزید غضب یہ ہے کہ یہ لوگ بہرے، گونگے اور اندھے بھی ہیں اور یہ تمام اوصاف ان کے اندر بیک وقت موجود ہیں۔1؂ (1؂ صم بکم عمی سے متعلق استاذ امام مولانا فراہی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ افادہ یہاں قابل ذکر ہے کہ اگر صفات کا بیان بغیر حرف عطف کے ہو تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تمام صفات موصوف کے اندر بیک وقت موجود ہیں۔) اس وجہ سے نہ تو یہ کسی پکارنے والے کی پکار سن سکتے ہیں ، نہ اس کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں اور نہ کسی نشان یا علامت یا اشارہ سے کوئی رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ جس راہ پر وہ چل پڑے ہیں اس سے مڑ کر کسی اور راہ کو اختیار کر سکیں۔ غور کیجئے تو یہ تمثیل ٹھیک ٹھیک یہود کے اس گروہ پر منطبق ہو رہی ہے جس کا زکر پہلے ہوا ہے اور جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہرلگ چکی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے پڑ چکے ہیں۔ اس وجہ سے ا ب وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ تمثیل میں آگ جلانے والے شخص سے اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف ہے۔ انہوں نے اپنی قوم کے لیے ہدایت کی شمع جلائی اور اس شمع نے پوری قوم کے لیے اجالا بھی کر دیا لیکن زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ بنی اسرائیل کی اکثریت اس روشنی سے بیزار ہو گئی جس کی سزا میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر لعنت کر دی اور وہ ہدایت کی باتیں سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے۔ بنی اسرائیل کی اس محرومی و بدبختی کی تفصیلات توریت و انجیل میں بھی بیان ہوئی ہیں اورقران میں بھی اس کا ذکر مختلف مقامات میں آیا ہے۔ یہاں ان کی اسی حالت کو تمثیل کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ تمثیل ایک قافلہ کی ہے جس کے تمام افراد بہرے، گونگے اور اندھے ہیں، مزید براں رات اندھیری ہے اور اس اندھیری رات میں یہ قافلہ بھٹک رہا ہے، نہ یہ کسی کی سنتا ہے ، نہ کسی کو پکار سکتا ہے نہ کسی کا جواب دے سکتا ہے اور نہ کسی نشانی یا روشنی سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔
Top