Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 16
اُولٰٓئِكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى١۪ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ
أُولَٰئِکَ : یہی لوگ الَّذِينَ : جنہوں نے اشْتَرَوُا : خرید لی الضَّلَالَةَ : گمراہی بِالْهُدَىٰ : ہدایت کے بدلے فَمَا رَبِحَتْ : کوئی فائدہ نہ دیا تِجَارَتُهُمْ : ان کی تجارت نے وَمَا کَانُوا : اور نہ تھے مُهْتَدِينَ : وہ ہدایت پانے والے
یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت پر گمراہی کو ترجیح دی تو تو ان کی تجارت ان کے لیے نفع بخش نہ ہوئی اور یہ ہدایت پانے والے نہ بنے
اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ: اشتراء کے معنی خریدنے کے ہیں۔ آدمی جس چیز کو کوئی قیمت ادا کر کے خریدتا ہے اس کو اس شے کے مقابل میں، جس کو وہ قیمت قرار دیتا ہے، ترجیح دیتا ہے۔ یہیں سے اس لفظ کے اندر ترجیح دینے کا مفہوم پیدا ہو گیا اور اس معنی میں یہ لفظ قران میں جگہ جگہ استعمال ہوا ہے۔ یہ اشارہ کن لوگوں کی طرف ہے؟ اوپر دو گروہوں کا ذکر ہوا ہے۔ ایک ان لوگوں کا جو ایمان لائے، دوسرے ان لوگوں کا جو ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ ان دونوں گروہوں کے بعد یہ ایک تیسرے گروہ کا بیان ہے جو تعلق تو رکھتا ہے ایمان نہ لانے والے گروہ سے لیکن اپنی بعض خصوصیات کے لحاظ سے ان سے کچھ مختلف مزاج رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ گروہ کن لوگوں کا ہے؟ لوگوں نے عام طور پر سمجھا ہے کہ یہ منافقین کا گروہ ہے۔ لیکن یہاں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ منافقین کے لفظ سے جو گروہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے وہ ظاہراً ہر پہلو سے اپنے آپ کو مسلمانوں کے اندر شامل رکھنے کی کوشش کرتا تھا، اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ اس کو جو عداوت تھی وہ چھپی ہوئی تھی جو صرف خاص خاص مواقع پر ہی ظاہر ہوتی تھی لیکن اس گروہ کو جو خصوصیات قرآن نے بیان فرمائی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ تو باطناً مسلمانوں کے ساتھ تھے اور نہ زبانی ہی ان کے ساتھ اتفاق کے اظہار کے لئے آمادہ تھے۔ مثلاً یہ لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان کا دعویٰ تو کرتے تھے لیکن نبی ﷺ اور قرآن پر ایمان کا اظہار زبان سے بھی کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ علاوہ ازیں یہ اپنے آپ کو مسلمانوں سے بالا تر سمجھتے تھے۔ چنانچہ جب ان سے مطالبہ کیا جاتا تھا کہ اگر ایمان کے مدعی ہو تو مسلمانوں کی طرح ایمان لاؤ تو کھلم کھلا مسلمانوں کو بے وقوف ٹھہراتے تھے۔ اس وجہ سے ان کو عام معنی میں منافقین کے زمرہ سے سمجھنا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ منافقین کے زمرہ سے تعلق نہیں رکھتے تھے تو پھر یہ کون لوگ ہیں اور کس زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ ہمارے نزدیک اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی یہود ہی کے اندر کا ایک گروہ تھا لیکن اسلام کی مخالفت میں اس کا کردار اس گروہ کے کردار سے کچھ مختلف نوعیت کا تھا جس کا ذکر اوپر گزرا ہے۔ اوپر جس گروہ کا ذکر ہوا ہے وہ تو نبی ﷺ کی بات بھی سننے کو تیار نہیں تھا، بلکہ اندھا بہرا ہو کر آپ کی مخالفت پر اتر آیا تھا لیکن یہ گروہ اسلام کی مخالفت مصلحت اندیشی کے رکھ رکھاؤ اور مصالحت پسندی کے روپ میں کرنا چاہتا تھا۔ مندرجہ بالا آیات پر اچھی طرح غور کرنے سے اس گروہ کا جو ذہنی پس منظر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں تک اسلام دشمنی کے جذبہ کا تعلق ہے یہ گروہ پچھلے گروہ سے کسی طرح بھی کم نہیں تھا۔ یہود میں دوسروں کے بالمقابل اپنی برتری کا جو احساس تھا وہ بھی ان لوگوں کے اندر بدرجہ اتم موجود تھا، بنی اسماعیل پر، ان کے اندر آخری نبی کی بعثت کی پیشین گوئی کے سبب سے، یہود کو جو حسد تھا، اس حسد میں بھی یہ مبتلا تھے بلکہ اس پیشین گوئی کے عملاً ظہور، اسلام کی روز افزوں ترقی اور عربوں کے اندر نبی ﷺ کی غیر معمولی مقبولیت نے ان کے اس حسد میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا تھا۔ ان ساری باتوں میں یہ لوگ اپنے ہم قوموں کے شریک تھے۔ لیکن یہ اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لئے مجرد انکار اور ضد کی اس پالیسی کو صحیح نہیں سمجھتے تھے جو یہود کے اس گروہ نے اختیار کی تھی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ بلکہ یہ لوگ یہودیت اور اسلام کے درمیان ایک قسم کے سمجھوتے کے خواہش مند تھے۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ اسلام بھی اپنی جگہ پر رہے اور ایک مذہبی گروہ کی حیثیت سے خود ان کو جو مرتبہ اور امتیاز حاصل ہے وہ بھی باقی رہے۔ اس کی جو شکل ان کے ذہن میں تھی وہ ان آیات کی روشنی میں یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ مسلمانوں سے اس بات کے خواہش مند تھے کہ مسلمان اپنی طرح ان کو بھی مومن اور خدا پرست سمجھیں کیوں کہ جہاں تک اللہ اور آخرت پر ایمان کا تعلق ہے ان کا دعویٰ تھا کہ ان دونوں چیزوں پر یہ بھی ایمان رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ مسلمان اگر محمد ﷺ کو پیغمبر اور ان کی پیش کی ہوئی کتاب کو آسمانی کتاب کی حیثیت سے ماننا چاہتے ہیں تو مانیں لیکن ان سے ان کے ماننے کے لئے اصرار نہ کریں، اگر انہوں نے دوسروں کی نجات بھی ان کے ماننے پر منحصر کر دی اور جس نے نہ مانا اس کو اللہ اور اس کے رسول کا مکذب قرار دے دیا تو اس سے ان کے نزدیک اس ملک کے مختلف مذہبوں اور ان کے پیروؤں کے درمیان ایک سخت قسم کی منافرت اور کشمکش کی حالت پیدا ہوجائے گی اور مذہبی رواداری کی وہ فضا جو اس ملک کے اندر اب تک قائم رہی ہے ختم ہو کے رہ جائے گی۔ اپنے اسی خیال کی بنا پر یہ لوگ اپنے آپ کو اصلاح کرنے والا بھی سمجھتے تھے۔ یعنی ان لوگوں کا خیال تھا کہ ہم اگر محمد ﷺ اور قرآن کو نہیں مان رہے تو یہ کسی فساد کی کوشش نہیں ہے بلکہ یہ عین اصلاح کی کوشش ہے کیوں کہ اس طرح ہم اس انتشار کو روک رہے ہیں جو اس نئی نبوت اور اس نئی دعوت سے پیدا ہو رہا ہے۔
Top