Tadabbur-e-Quran - Al-Muminoon : 78
وَ هُوَ الَّذِیْۤ اَنْشَاَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ
وَهُوَ : اور وہ الَّذِيْٓ : وہی جس نے اَنْشَاَ لَكُمُ : بنائے تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) قَلِيْلًا : بہت ہی کم مَّا تَشْكُرُوْنَ : جو تم شکر کرتے ہو
اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے کان، آنکھ اور دل بنائے، پر تم بہت کم شکر گزار ہوتے ہو !
کان، آنکھ اور دل کا اصلی مصرف اوپر کے کلام میں خطاب آنحضرت ﷺ سے تھا اور اس میں قریش کو جو تہدید و وعید ہے وہ غائب کے صیغہ سے ہے۔ اب یہ ان کو براہ راست مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ خدا نے جو تم کو کان، آنکھ اور دل عطا فرمائے ہیں تو کا ہے کے لئے عطا فرمائے ہیں ! اسی لئے تو کہ ان سے نصیحت و حکمت کی وہ باتیں، جو تمہیں سنائی جا رہی ہیں سنو، اللہ کی وہ نشانیاں جو آفاق وانفس میں پھیلی ہوئی ہیں اور جن کی طرف تمہیں توجہ دلائی جا رہی ہے، ان کو دیکھو، اور ان سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں اور جو تمہارے سامنے نہایت واضح طور پر پیش کئے جا رہے ہیں ان پر غور کرو، کان، آنکھ اور دل دماغ کا اصلی مصرف یہی ہے لیکن تم عجیب شامت زدہ لوگ ہو کہ حق کو حق ماننے کے لئے دلیل کے بجانے تنبیہ کے ڈنڈے کا مطالبہ کر رہے ہو ! مطلب یہ ہے کہ اگر عقل اور استدلال سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے آدمی صرف ڈنڈے ہی کی منطق سے قائل ہو تو اس میں اور گدھے میں کیا فرق رہا ! قلیلاً ما تشکرون اظہار حسرت و افسوس کا جملہ ہے، مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کی بخشی ہوئی اتنی اعلیٰ نعمتیں پاکر ان کی بہت کم قدر کرتے ہو ! شکر کی اصل حقیقت، جیسا کہ اس کے محل میں ہم واضح کرچکے ہیں نعمت کی قدر دانی ہے اور نعمت کی قدر دانی یہ ہے کہ آدمی اس سے صحیح فائدہ اٹھائے اور اپنے منعم کا شکر گزار ہو۔
Top