Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 66
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا السَّاعَةَ اَنْ تَاْتِیَهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ
هَلْ : نہیں يَنْظُرُوْنَ : وہ انتظار کرتے اِلَّا السَّاعَةَ : مگر قیامت کا اَنْ تَاْتِيَهُمْ : کہ آجائے ان کے پاس بَغْتَةً : اچانک وَّهُمْ : اور وہ لَا : نہ يَشْعُرُوْنَ : شعور رکھتے ہوں
یہ لوگ تو بس قیامت ہی کے منتظر ہیں کہ وہ ان پر اچانک آدھمکے اور انہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔
-8 آگے کا مضمون آیات 89-66 آگے خاتمہ سورة کی آیات ہیں جن میں پہلے تو ایمان لانے والوں کے حسن انجام اور کفر کرنے والوں کے سوء انجام کی وضاحت فرمائی ہے اس کے بعد نبی ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے ان لوگوں سے اعراض کا حکم دیا ہے جو اللہ کی ہدایت کا مذاق اڑاتے اور اپنے انجام سے بےفکر رہے۔ آخر میں توحید کی پھر یاد دہانی کردی ہے کہ جو لوگ شفاعت باطل کے بل پر آخرت سے نچنت ہیں وہ یاد رکھیں کہ اس دن ہر ایک کو سابقہ اللہ واحد ہی سے پیش آئے گا اور کسی کی سفارش کسی کے کچھ کام آنے والی نہیں بنے گی … آیات کی تلاوت فرمایئے۔ -9 الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت ھل ینظرون الا الساعۃ ان تاتیھم بغتۃ وھم لاشعرون 66 اوپر کے دلائل بیان کرنے کے بعد یہ نبی ﷺ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ لوگ تمہاری بات جو نہیں سن رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نگاہوں میں تمہاری تذکیر و موعظت کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ ان کا رویہ شاہد ہے کہ یہ لوگ متنبہ ہونے اور آخرت کے لئے کچھ کمائی کرنے کے بجائے چاہتے ہیں کہ قیامت ان کے اوپر اس طرح اچانک آدھمکے کہ اس کی ان کو خبر بھی نہ ہو۔ اگر یہی یہی چاہتے ہیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑو۔ اللہ نے تو یہ چاہات تھا کہ اس ہولناک دن کے آنے سے پہلے پہلے یہ اس کے لئے کچھ کمائی کرلیتے لیکن یہ اس کا استقبال اچانک ہی کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے فکر مند ہونا بےسود ہے۔ اپنی اس بےفکری کا انجام یہ خود دیکھ لیں گے۔
Top