Tadabbur-e-Quran - Az-Zukhruf : 67
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠   ۧ
اَلْاَخِلَّآءُ : دوست يَوْمَئِذٍۢ : آج کے دن بَعْضُهُمْ : ان میں سے بعض لِبَعْضٍ : بعض کے لیے عَدُوٌّ : دشمن ہوں گے اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ : مگر تقوی والے
اس دن تمام دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے بجز خدا ترسوں کے۔
الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض علدو الا المتقین 67 روز قیامت کی نفسی نفسی یعنی اس دنیا میں تو ان کو اپنے دوستوں، مددگاروں، اپنی قوم و قبیلہ اور اپنے شرکاء و شفعاء پر بھروسا ہے اور اس بھروسے نے انہیں آخرت سے بالکل نچنت کر رکھا ہے لیکن آگے جو دن آنے والا ہے اس دن کوئی قریبی سے قریبی رشتہ دار اور عزیز سے عزیز دوست بھی کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں بنے گا بلکہ یہ سارے دوست آخرت میں باہمدگردشمن بن جائیں گے کہ ان کی یہ باہمی دوستی ہی ان کے لئے اس ابدی تباہی کا موجب ہوئی۔ اگر یہ ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملانے والے نہ ہوتے بلکہ اپنے خیر و شر پر آزادی و سنجیدگی سے غور کرتے تو نبی اور اس کے ساتھیوں کے کلمہ خیر کی برکت سے محروم نہ رہتے۔ اس دن ہر شخص اپنی اس محرومی پر سر پیٹے گا اور اپنے ساتھی کو ملامت کرے گا لیکن یہ سارا نالہ و شیون بالکل بےسود ہوگا۔ پیچھے آیات 39-36 میں یہ مضمون نہایت عمدہ اسلوب سے بیان ہوچکا ہے۔ الا المتضین یعنی خدا کے باایمان اور متقی بندے اس انجام بد سے محفوظ رہیں گے۔ انہوں نے ایک دوسرے کو حق و عدل کی نصیحت کی اور اسی پر خود بھی عامل رہے اس وجہ سے قیامت کے دن وہ اپنی کامیابی پر شادمان ہوں گے اور اپنے ساتھیوں کا سلام و تحیت کے ساتھ خیر مقدم کریں گے۔
Top