Tadabbur-e-Quran - Adh-Dhaariyat : 46
وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ۠   ۧ
وَقَوْمَ نُوْحٍ : اور قوم نوح مِّنْ قَبْلُ ۭ : اس سے قبل اِنَّهُمْ كَانُوْا : بیشک وہ تھے قَوْمًا فٰسِقِيْنَ : فاسق لوگ
اور قوم نوح کو بھی ہم نے اس سے پہلے پکڑا۔ یہ لوگ بھی نافرمان تھے
وقوم نوح من قبل، انھم کانواقوماً فسقین (46) قوم نوح کے عذاب کی طرف اشارہ یہ عطف اس مفہوم پر ہے جو اوپر کی سرگزشتوں سے متبادر ہوتا ہے یعنی جس طرح ہم نے قوموں کو پکڑا یا ہلاک کیا اسی طرح ان سے پہلے قوم نوح کو بھی ہلاک کیا۔ مفہوم ومعنی پر عطف کی مثالیں قرآن میں بہت ہیں۔ اس کے شواہد پیچھے گزر چکے ہیں۔ یہ آخر میں قوم نوح کے واقعہ کی طرف بھی اجمالی اشارہ کردیا۔ اگرچہ تاریخی ترتیب کے اعتبار سے سب سے پہلے اسی واقعہ کا ذکر ہونا تھا لیکن قرآن نے یہاں ترتیب تاریخی اختیار نہیں کی بلکہ قریش کو ان واقعات کی طرف توجہ دلائی ہے جن کی روایات اور جن کے آثار ان کے ملک میں موجود تھے اور جن کی طرف اوپر آیت وفی الارض ایت للموقنین، میں اشارہ فرمایا ہے۔ یہ مقصد مقتضی ہوا کہ پہلے قوم لوط اور قوم فرعون وغیرہ کا ذکر آئے جو زمانی ومکانی دونوں ہی اعتبار سے نسبتاً قریب کے واقعات تھے اس وجہ سے مخاطب پر زیادہ اثر انداز ہوسکتے تھے۔ پھر سب سے آخر میں سب سے پہلے واقعہ کا بھی حوالہ دے دیا تاکہ مخاطب کے سامنے پوری تاریخ آجائے۔ اس واقعہ کی یاددہانی کا یہ خاص پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ جس طرح مذکورہ بالا قوموں کی سرگزشتوں میں آپ نے دیکھا کہ ان کی تباہی میں اصلی عامل کی حیثیت ہوا کے تصرفات کو حاصل ہے جس کی قسم سورة کے شروع میں کھائی گئی ہے، اسی طرح قوم نوح کو بھی اللہ تعالیٰ نے ہوا ہی کے تصرف سے ہلاک کیا۔ استاذ امام فراہی ؒ نے سورة ذاریات کی تفسیر میں قوم نوح کی تباہی کی نوعیت پر مفصل بحث کی ہے۔ اس کا ضروری حصہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ مولانا ؒ فرماتے ہیں۔ ”قرآن اور تورات میں قوم نوح کی تباہی سے متعلق جو تفصیلات ملتی ہیں ان پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان کی تباہی میں بھی اصل دخل ہوا کے تصرفات ہی کا رہا ہے۔ سورة عنکبوت میں ارشاد ہے : قوم نوح کی تباہی میں اصل دخل ہوا کے تصرفات کا تھا۔ (العنکبوت : 14) اور ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے اندر پچاس سال کم ایک ہزار سال رہا۔ پس ان کو پکڑا طوفان نے اور وہ ظالم تھے۔“ ”اس آیت میں لفظ طوفان، خاص طور پر قابل غور ہے، ’ طوفان ‘ کے لغوی معنی دوران یعنی گردش کرنے اور چکر کھانے کے ہیں۔ اہل عرب اس سے اس تند ہوا کو مراد لیتے ہیں جو تیزی سے چکر کھاتی ہوئی اٹھتی ہے“۔ اس معنی کی تائید میں کلام عرب کے بعض شواہد نقل کرنے کے بعد مولانا ؒ فرماتے ہیں۔ ”دوسری زبانوں میں بھی اس قسم کی تند ہوا کے لئے اس کے ہم معنی اور اسی کے مشابہ الفاظ ہیں۔ فارسی میں اس کو گرد باد کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس کے لئے سائیکلون (Cyclone) کا لفظ ہے، مصریوں کے ہاں ہوا کا ایک خاص دیوتا تھا جس کو طائفون کہتے تھے۔ اس ہوا کی خاصیت یہ ہے کہ اس سے شدت کی بارش ہوتی ہے اور سمندر کا پانی جوش میں آجاتا ہے۔ میں نے کراچی میں اس قسم کا طوفان بچشم خود دیکھا ہے بحر ہند کے مشرق سے ایک طوفان اٹھا اور مغرب کی طرف گزر گیا۔ اس کے اثر سے نہایت سخت بارش ہوئی۔ جہاز پہاڑوں سے جاٹکرائے۔ دوسرے جانی مالی نقصانات بھی بیشمار ہوئے۔ طوفان نوح کے جو حالات تورات و قرآن میں بیان ہوئے ہیں وہ بڑی حدتک اس سے مشابہ ہیں۔ سورة ٔ قمر میں ہے : ففتحنا ابواب السمآء بماء منھمرہ وفجرنا الارض عیوناً فالتقی المآء علیٰ امرقد قدر (القمر : 12) ہم نے آسمان کے دروازے موسلادھار بارش کے ساتھ کھول دیئے اور زمین کے تمام چشمے پھوٹ نکلے۔ پس پانی ٹھہرائے ہوئے اندازہ تک پہنچ گیا۔“ ”تورات کی کتاب پیدائش، باب 7۔ 11 میں ہے۔ بڑے سمندر کے سب سوتے پھوٹ نکلے اور آسمان کی کھڑکیاں کھل گئیں۔ سورة ہود میں ہے۔ وھی تجری بھم فی موج کالجبال (ھود : 42 اور وہ کشتی ان کو لے کر ایسی موجوں کے اندر چل رہی تھی جو پہاڑوں کی طرح بلند ہورہی تھیں۔ پہاڑ کی طرح موجوں کا اٹھنا اسی حالت میں ہوتا ہے جب تند ہوا چل رہی ہو۔ آخر میں مولانا ؒ نے خلاصہ بحث ان الفاظ میں پیش کیا ہے۔ ”اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ قوم نوح پر تند اور چکر دار ہوا کا طوفان آیا جس سے سخت بارش ہوئی۔ پاس کے سمندروں کا پانی ابل پڑا اور ہر طرف سے موجیں اٹھنے لگیں۔ اس طوفان کے اندر نوح ؑ کا سفینہ کوہ جودی پر جا کے ٹکا۔“ 9۔ واقعات کی ترتیب پر ایک نظر اوپر جو واقعات بیان ہوئے ہیں، آیات کی وضاحت کے ضمن میں ہم ان کی حکمت کی طرف ضروری اشارات کرتے آئے ہیں لیکن استاذ امام ؒ نے ان کی ترتیب پر ایک پوری فصل لکھی ہے جس میں نہایت لطیف نکتے بیان فرمائے ہیں۔ اس فصل کا ضروری حصہ ہم یہاں درج کرتے ہیں۔ مولانا ؒ فرماتے ہیں۔ ”حضرت ابراہیم وحضرت لوط (علیہما السلام) کی جو سرگزشت یہاں بیان ہوئی ہے اس کا ایک پہلو تو بالکل واضح ہے کہ اس میں بشارت اور انداردونوں ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ غورکیجئے تو معلوم ہوگا کہ بعینہ یہی حال ہوا کا بھی ہی جس کی یہاں قسم کھائی گئی ہے۔ وہ بھی کبھی پیام رحمت بن کر ظاہر ہوتی ہے اور کبھی صورت عذاب بن کر حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ کی یہ جامع حیثیت مقتضی ہوئی کہ یہاں وہی تمہید کی جگہ پائیٰ۔“ ”اس کے بعد قوم لوط کی سرگزشتہ بیان ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں کو ان کی تباہ شدہ بستیوں پر گزرنے اور ان کے آثار ونشانات اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے مواقع ملتے رہتے تھے۔ علاوہ ازیں مقسم یہ کے پہلے ٹکڑے ”والذریت ذرداً ہ فالحملت وقراً ، (قسم ہی ان ہوائوں کی جو غبار اڑاتی چلتی ہیں پھر اٹھا لیتی ہیں بوجھ) سے سب سے زیادہ قریبی مناسبت قوم لوط کی تباہی کے واقعہ ہی کو تھی۔ ان کی تباہی تند ہوا سے ہوئی تھی جس نے ریت اور سنگ ریزوں سے ان کو ڈھانپ دیا۔ اس کی اتنی مقدار ان کے اوپر لاڈالی کہ اس کے نیچے ان کی بستیاں بھی چھپ گئیں“ علاوہ بریں اوپر جو فرمایا ہے : وفی الارض آیت للموقین، اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں) تو قوم لوط کی سرگزشت میں اس دعوے کا بھی نہایت واضح ثبوت موجود تھا جس کی وضاحت پیچھے ہوچکی ہے۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ کی سرگزشتہ ہے۔ سرگزشت قرآن مجید میں بار بار بیان ہوئی ہے اور اس کے اندر نہایت اعلیٰ سبق ہیں۔ اس کو مقسم یہ کہ دوسرے ٹکڑے فالحملت والحراء فالجریت بسراً (پھر بوجھ اٹھا لینے والی، پھر آہستہ چلنے والی) سے نہایت واضح مناسبت ہے اس کی وضاحت ہوچکی ہے۔“ ”یہاں یہ نکتہ بھی قابل لحاظ ہے کہ جن سرگزشتوں کو حضرات انبیاء (علیہم السلام) کے ناموں سے شروع کیا ہے ان کے اندر بشارت کا پہلو نمایاں ہے۔ اس کے بعد جو سرگزشتیں قوموں کے نام سے سنائی گئی ہیں ان کے اندر انداز کا پہلو غالب ہے۔ قوموں میں سے عاد اور ثمود کا ذکر خاص طور پر ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہی کہ ان کے اوپر جو عذاب آیا وہ دھاریوں والے بادلوں (والسمآء ذات العبک) کی شکل میں آیا۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ جو ترتیب قسموں میں ملحوظ ہے وہی ترتیب قوموں کے ذکر میں بھی ہے۔ عاد اور ثمود کے ذکر میں عاد کو مقدم رکھا ہے اس کی وجہ تقدم زمانی کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ان پر جو عذاب آیا وہ ہوا اور بادل دونوں کے تصرفات کا نتیجہ تھا۔“ ”رہی نوح ؑ کی سرگزشت تو وہ تمام قوموں اور امتوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ایک غیرفانی نشانی ہے۔ یہ آیت اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ انا لماطغا المآء حملنکم فی الجاریۃ، لنجعلھا لکم تذکرۃ وتعیھا اذن واعیسۃ (العاقۃ : 11۔ 12) جب پانی حد سے بڑھ گیا تو ہم نے تم کو کشتی میں اٹھالیا تاکہ اس سرگزشت کو تمہارے لئے یاددہانی بنائیں اور محفوظ رکھنے والے کان اس کو محفوظ کرلیں۔ ”اس سرگزشت کے اندر زمین، آسمان، ابر، ہوا، بادل، کشتی اور پانی سب کے کرشمے جمع ہوگئے ہیں۔ اس جامعیت کے سبب سے اس نے آفاقی وانفسی دلائل کے ایک مجموعہ کی حیثیت حاصل کرلی ہے چناچہ اوپر ہوا کی جو شہادتیں بیان ہوئیں اور بعد میں زمین و آسمان اور نفس کے جن آثار و دلائل کی طرف اشارے کئے گئے ان سب کے لحاظ سے مناسب ہوا کہ قوم نوح کی یہ جامع سرگزشت سنا کر وہ ساری حقیقتیں ممثل کرکے نگاہوں کے سامنے رکھ دی جائیں۔“ ”نیز عاد اور ثمود کو زمین کی خلافت قوم نوح کے بعد ہی ملی تھی اس وجہ سے بھی مناسب ہوا کہ ان کے ذکر کے ساتھ قوم نوح کا بھی حوالہ دیا جائے۔ قرآن مجید میں اس کی دوسری مثال بھی موجود ہے۔ وانہ اھلک عاد، الاولیٰ ، وثمودا، فما ابقی، وقم مرنوح من قبل انھم کانواھم اظلم واطفیٰ (انجم : 50۔ 52) اور اس نے عاد اول کو ہلاک کیا اور ثمود کو بھی۔ پس ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑا۔ اور اس سے پہلے قوم نوح کو بھی ہلاک کیا۔ یہی لوگ ظالم و سرکش تھے۔“ ”اس آیت میں وقوم نوح من قبل، کے ٹکڑے پر خاص طور پر نگاہ رکھیے۔“ ”چونکہ یہ سرگزشت مشہور اور قدیم ہونے کے علاوہ تمام قوموں کی مشترک سرگزشت ہے اس وجہ سے اول تو اس کی طرف اجمالی اشارہ کافی ہوا پھر اس کا ذکر ایک اتمامی سرگزشت کی حیثیت سے کیا گیا۔ نیز ایجاز کی خوبی دیکھئے کہ محض اسلوب کی تبدیلی سے ظاہر ہوگیا کہ ماقبل سے اس کو کسی قدر مستقل اور جداگانہ اہمیت حاصل ہے۔ چناچہ وفی نوح، نہیں کہا، جیسا کہ اوپر وفی موسیٰ اور وفی عاد، کہا ہے بلکہ اسلوب بدل کر وقوم نوح فرمایا تاکہ بدلا ہوا اسلوب خود متنبہ کردے کہ اس سرگزشت کی اہمیت کچھ اور ہے۔“
Top