Tadabbur-e-Quran - At-Tur : 30
اَمْ یَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَیْبَ الْمَنُوْنِ
اَمْ يَقُوْلُوْنَ : یا وہ کہتے ہیں شَاعِرٌ : ایک شاعر ہے نَّتَرَبَّصُ : ہم انتظار کر رہے ہیں بِهٖ : اس کے بارے میں رَيْبَ : حوادث کا الْمَنُوْنِ : موت کے۔ زمانے کے
کیا یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک شاعر ہے جس کے لیے ہم گردش روزگار کے منتظر ہیں !
(امر یقولون شاعر نتربص بہ ریب المنون۔ قل تربصو فانی معکم من المتربصین) (30، 31)۔ (مخالفین کے ایک الزام کا جواب)۔ یہ ان کے دوسرے الزام کا حوالہ ہے۔ فرمایا کہ کیا یہ لوگ تمہیں شاعر کہتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ جس طرح دوسرے بہت سے شاعر اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ گئے اسی طرح گردش روز گار ایک دن تمہیں بھی فنا کر دے گی۔ فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس انتظار میں ہیں تو ان سے کہہ دو کہ تم لوگ انتظار کرو، میں بھی انتظار میں ہوں کہ میں جو وعید تم کو سنا رہا ہوں وہ پوری ہوتی ہے یا تم جو خواب دیکھ رہے ہو وہ سچا ہوتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے مخالفین آپ کو جو شاعر کہتے تھے تو اس کی وجہ، جیسا کہ ہم جگہ جگہ واضح کرتے آ رہے ہیں، یہ نہیں تھی کہ وہ فی الواقع آپ کو کوئی شاعر سمجھتے تھے، بلکہ اس الزام سے وہ اس اثر کو مٹانا چاہتے تھے جو قرآن کے زور بیان اور اس کی بلاغت و جرالت سے لوگوں کے دلوں پر پڑتا تھا اور جس کے سبب سے اس کے کلام الٰہی ہونے کی ہیبت لوگوں پر بیٹھتی جا رہی تھی۔ وہ اپنے پیروئوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ قرآن میں جو زور ہے یہ اسی طرح کا ہے جس طرح کا زور ہمارے بعض بڑے شاعروں کے کلام میں ہے اس وجہ سے اس کو وحی والہام کا درجہ دے کر نہ تو کسی عذاب کے اندیشہ میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے اور نہ اپنے دین آبائی سے مایوس ہونے کی۔ جس طرح ہمارے شاعروں کے کلام کی ان کے دور میں بڑی دھوم رہی ہے، لیکن پھر نہ وہ باقی رہے اور نہ ان کی شاعری، اسی طرح چند دن اس شخص کی فصاحت و بلاغت کا تماشا بھی دیکھ لو، بالآخر اس کو بھی گردش روزگار مٹا کے رکھ دے گی۔ (قل تر بصوا فانی معکم من المتربصین) فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس انتظار میں ہیں تو ان کو بتا دو کہ تم لوگ بھی انتظار کرو، میں بھی انتظار کر رہا ہو کہ تمہاری یہ طمع خام پوری ہوتی ہے یا میرے رب نے تم کو جس چیز سے ڈرایا ہے وہ ظاہر ہو کے رہتی ہے۔ المنون کے معنی الدھر یعنی زمانہ کے ہیں۔ محاورہ ہے۔ دارعلیھم المنون وہ گرش روزگار کی نذر ہوگئے۔ ریب المنون کے معنی ہیں حوادث روزگار۔ مخالفین کے اس الزام کی مفصل تردید قرآن نے سورة شعراء میں کی ہے۔ وہاں چند نہایت واضح کسوٹیاں بھی قرآن نے لوگوں کے سامنے رکھ دی ہیں جن پر ہر عاقل پرکھ کر فیصلہ کرسکتا ہے قرآن اور اس کے حامل کو شعر اور شاعری سے دور یا قریب کا کوئی واسطہ ہے یا نہیں۔ ہم نے بھی اس کے ہر پہلو پر وہاں تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
Top