Tadabbur-e-Quran - An-Najm : 19
اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَ الْعُزّٰىۙ
اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو وَالْعُزّٰى : اور عزی کو
(بھلا، کبھی غور کیا ہے لات اور عزی
2۔ آگے آیات 19۔ 30 کا مضمون آگے مخالفین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تم کو اس اہتمام کے ساتھ روز جزاء و سزا سے جو ڈرایا جا رہا ہے تو آخر کس بل بوتے پر اس سے نچنت بیٹھے ہو ! کیا اپنی مزعومہ دیویوں، لات، عزی اور نہایت کی سفارش کے بھروسہ پر اگر اس وہم پر مبتلا ہو تو یاد رکھو کہ یہ تمہارے رکھے ہوئے محض فرضی نام ہیں جن کا کوئی مسمی موجود نہیں ہے۔ جزاء و سزا ایک حقیقت ہے، حقیقت کا مقابلہ تم محض اٹکل پچو مفروضات سے نہیں کر سکت، تم نے جو جھوٹی آرزو میں اپنے دلوں میں پال رکھی ہیں یہ محض تمہاری خواہشیں ہیں، ضروری نہیں کہ یہ پوری بھی ہوجائیں۔ دنیا و آخرت کے سارے معاملات اللہ ہی کے ہی اختبار میں ہیں۔ کسی فرشتہ کا بھی یہ درجہ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کے اذن کے بدون زبان ہلا سکے۔ جن لوگوں نے فرشتوں کے نام عورتوں کے نام پر رکھ چھوڑے ہیں اور ان کی سفارش کے بل پر قرآن کے انداز سے بالکل بےپروا ہیں انہوں نے آخرت کی مسئولیت سے فرار کے لیے یہ ایک چور دروازہ نکالا ہے لیکن یہ چیز ذرا بھی ان کو نفع پہنچانے والی نہیں بنے گی۔ اللہ تعالیٰ نیک اور بد دونوں قسم کے لوگوں کو سب سے زیادہ خود جانتا ہے۔ اس روشنی میں آیات کی تلاوت فرمایئے۔ 3۔ الفاظ کی تحقیق اور آیات کی وضاحت (افرء یتم اللت والعزی ومنوۃ الثالثۃ الاخری) (19۔۔ 20) (قریش کو علامت) سوال یہاں تعجب اور استحقاف و تحقیر کے لیے ہے۔ اوپر آپ نے حضرت جبریل ؑ کی صفات ملاحظہ فرمائیں۔ کہ وہ شدید القوی اور ذومزۃ ہیں۔ دوسرے مقام میں ان کی تعریف مطاع (التکویر : 21) اور عند ذی العرش مکین (التکویر : 20) کے الفاظ سے بھی آتی ہے۔ ان صفات کے مضمرات کے بعض پہلوئوں کی طرف ہم پیچھے اشارہ کر آئے ہیں۔ یہاں ان کا ایک اور خاص پہلو بھی قابل توجہ ہے جو اس آیت کے تحقیر آمیز اسلوب کلام سے سامنے آتا ہے۔ غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ حضرت جبریل ؑ کی یہ صفات نہایت اعلیٰ مردانہ صفات ہیں۔ گویا قریش کو اس جلیل القدرفرشتہ کی ان صفات کا حوالہ دے کر ملامت کی گئی کہ نا دانو ! کہاں یہ اعلیٰ مردانہ صفات کے ملائکہ اور کہاں تمہاری یہ دیویاں۔۔ لات، عزمی اور منات۔۔ جن کی نسبت تمہارا یہ گمان ہے کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں اور جن کے نام تم نے عورتوں کے نام پر رکھ چھوڑے ہیں۔ (مشرکین کی تین عالی مرتبہ دیویاں)۔ آگے کی آیات سے واضح ہوجائے گا کہ یہ تینوں فرشتوں کے بت تھے۔ فرشتوں کی نسبت، جیسا کہ جگہ جگہ اس کتاب میں وضاحت ہوچکی ہے، مشرکین عرب کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی چہیتی، بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی ہر بات مانتا ہے اس وجہ سے وہ اپنے پجاریوں کو اس دنیا میں بھی رزق و اولاد دلواتی ہیں اور اگر آخرت ہوئی تو وہاں بھی یہ ان کی بخشوا لیں گے۔ خاص طور پر ان تینوں دیویوں کا ان کے ہاں بڑا مرتبہ تھا۔ ان کی سفارش بےخطاسمجھی جاتی تھی۔ ان کی نسبت ان کا عقیدہ تھا کہ (تلک الغرانیق العلی وان شفا عتھن لترتجی) یہ بڑے مرتبے کی دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت کی قبولیت کی پوری امید ہے۔ اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے کہ قبائل عرب میں سے کون ان میں سے کس کو پوجتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ کسی خاص قبیلہ کو ان میں سے کسی ایک کے ساتھ کچھ زیادہ خصوصیت رہی ہو لیکن ان کی عظمت تمام مشرکین کے نزدیک یکساں مسلم تھی۔ قریش نے ساری عرب پر اپنی سیاسی و مذہبی پیشوائی کی دھاک جمائے رکھنے کے لیے تمام دیویوں دیوتائوں کی مورتیاں خانہ کعبہ میں بھی جمع کر چھوڑی تھیں۔ ان تینوں دیویوں کے پجاریوں کی تعدادچون کہ سارے عرب میں سب سے زیادہ تھی اس وجہ سے قریش بھی ان کی سب سے زیادہ تعظیم کرتے تھے۔ (ان دیویوں میں فرق مراتب) قرآن کے بیان میں سے یہ بات بھی واضح ہے کہ یہ تینوں دیویاں اس اعتبار سے اگرچہ ایک ہی زمرہ سے تعلق رکھنے والی تھیں کہ یہ سب عالی مرتبہ عیاں کی جاتی تھیں تاہم ان میں باہم فرق مراتب بھی تھا۔ لات اور عزی کا مرتبہ سب سے اونچا تھا۔ منات اگرچہ زمرہ میں انہی کے اندر شمار ہوتی تھی لیکن مرتبے کے لحاظ سے یہ ان سے فروتر تھی، چناچہ قرآن نے اس کا ذکر دو صفتوں کے ساتھ کیا ہے ایک ثالثہ اور دوسری اخری پہلی صفت اس کے زمرے کا پتہ دیتی ہے کہ یہ انہی تین کی تیسری ہے۔ دوسری صفت اخری اس کے درجے کا پتہ دیتی ہے کہ یہ عندیہ شامل تو انہی میں تھی لیکن یہ دوسرے نمبر پر تھی۔ اولی اور اخری کے الفاظ درجے کو واضح کرنے کے لیے عربی زبان میں معروف ہیں اور اس مفہوم کے لیے قرآن میں بھی یہ آئے ہیں۔ وقالت اولھم لا خرھم (الاعراف 39) والی آیت میں اس کی نظیر موجود ہے۔ (ان ناموں کے اشتقاق سے متعلق بعض اشارات)۔ ان ناموں کے اشتقاق اور ان کے معانی سے متعلق جو تحقیق تفسیر کی کتابوں میں آئی ہیں ان کا بیشتر حصہ بےبنیاد ہے۔ ہمارے نزدیک اللت لو الالھۃ کی بگڑی ہوئی شکل ہے، جس طرح معبود اعظم کے لیے اللہ تھا اسی طرح بڑی دیوی کے لیے انہوں نے الالھۃ اختیار کیا جس کو عوام نے اپنے کثرت استعمال سے اللہ بنا دیا۔ بعض لوگوں نے اس کو لت کے مادہ سے لیا ہے، جس کے معنی گوندھنے، دولت کرنے کے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہے کہ یہ ایک شخص تھا جو زمانہ حج میں حاجیوں کو ستو گھول کر پلاتا تھا اس کے مرنے کے بعد لوگوں نے اس کی قبر کی پوجا شروع کردی اور اس نام سے وہ ایک معبود بن گیا۔ یہ رائے اشتقاق کے قاعدے کی رو سے بھی غلط ہے اور قرآن کی تصریحات کے بھی خلاف ہے۔ قرآن کے بیان سے یہ بات واضح ہے کہ یہ دیویوں کے بت تھے اور یہ دیویاں فرشتوں کے نام عورتوں کے نام پر رکھ کر بنائی گئی تھیں۔ عزی ظاہر ہے کہ عزیز اور اعز کی مونت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں عزیز ایک نمایاں صفت ہے جو اس کی عزت و عظمت کو ظاہر ہوتی ہے۔ اسی پہلو سے اس دیوی کے لیے عزی کا نام اختیار کیا گیا۔ مذات میرے نزدیک منیعۃ کے مادہ سے بنایا ہوا نام ہے جس کے معنی ہوں گے وہ دیوی جس کے قرب کی آرزو کی جائے یا جو آرزئو وں کے بر آنے کا ذریعہ ہو۔
Top