Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 133
وَ رَبُّكَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ١ؕ اِنْ یَّشَاْ یُذْهِبْكُمْ وَ یَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا یَشَآءُ كَمَاۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ اٰخَرِیْنَؕ
وَرَبُّكَ : اور تمہارا رب الْغَنِيُّ : بےپروا (بےنیاز) ذُو الرَّحْمَةِ : رحمت والا اِنْ : اگر يَّشَاْ : وہ چاہے يُذْهِبْكُمْ : تمہیں لے جائے وَيَسْتَخْلِفْ : اور جانشین بنا دے مِنْۢ بَعْدِكُمْ : تمہارے بعد مَّا يَشَآءُ : جس کو چاہے كَمَآ : جیسے اَنْشَاَكُمْ : اس نے تمہیں پیدا کیا مِّنْ : سے ذُرِّيَّةِ : اولاد قَوْمٍ : قوم اٰخَرِيْنَ : دوسری
اور تیرا رب بےنیاز، رحمت والا ہے اگر وہ چاہے تم کو فنا کردے اور تمہارے بعد تمہاری جگہ جس کو چاہے لائے جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا دوسروں کی نسل سے
قریش کو براہ راست دھمکی : اوپر جو باتیں بیان ہوئی تھیں اگرچہ واضح طور پر ان کا رخ قریش ہی کی طرف تھا لیکن ان کی نوعیت اصولی باتوں کی تھی۔ اب یہ صاف صاف قریش کو مخاطب کر کے دھمکی دی کہ جہاں تک اتمام حجت کا تعلق ہے اس کا سامان خدا نے تمہارے لیے بھی کردیا ہے۔ اب تمہاری قسمت میں بھی میزان میں ہے۔ اگر تم نے اپنے آپ کو نہ سنبھالا تو خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے اور جب اس کی پکڑ میں آجاؤ گے تو پھر اس کے قابو سے باہر نہ نکل سکو گے۔ وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ۔ فرمایا کہ تمہارا خداوند غنی اور بےنیاز بھی ہے اور رحمت والا بھی ہے۔ ہم دوسرے مقام میں واضح کرچکے ہیں کہ صفات جب اس طرح حرف عطف کے بغیر بیان ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ صفتیں موصوف میں بیک وقت موجود ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں غنی بھی ہے اور رحمت والا بھی۔ اپنی صفت غنا کی وجہ سے اس کو کسی کی پروا نہیں۔ وہ سب سے بےنیاز، سب سے مستغنی اور سب سے بےپروا ہے۔ سب اس کا انکار کردیں تو اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ سب اس کی حمد کے ترانے گائیں تو اس کا کچھ نہیں بنتا۔ وہ اگر اپنے رسول بھیجتا ہے، کتاب اتارتا ہے، ایمان و اسلام کی دعوت دیتا ہے تو اس لیے نہیں کہ لوگوں کے ایمان و اسلام کے بغیر اس کا کوئی کام اٹکا ہوا ہے بلکہ یہ سب کچھ اس لیے کرتا ہے کہ بےنیاز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ رحمت والا بھی ہے۔ اس کی اس رحمت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ لوگوں تک وہ لوگوں کو مہلت دیتا ہے جب تک وہ اپنا پیمانہ اچھی طرح بھر نہ لیں۔ یہ تمہید ہے اس بات کی جو آگے آرہی ہے۔ اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْۢ بَعْدِكُمْ مَّا يَشَاۗءُ كَمَآ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ ذُرِّيَّةِ قوم آخرین۔ مطلب یہ ہے کہ تمہاری ان تمام سرکشیوں کے باوجود جو تمہاری پکڑ نہیں ہو رہی ہے تو اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ خدا پکڑ نہیں سکتا یا تمہارے فنا ہوجانے سے اس کی دنیا اجڑ جائے گی اور پھر اس کے آباد کرنے والے نہیں ملیں گے بلکہ اس کا واحد سبب اس کی رحمت ہے۔ ورنہ اگر وہ تم کو فنا کرنا چاہے تو جب چاہے فنا کردے اور تمہاری جگہ جس چیز کو چاہے دے دے۔ اور یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو تمہارے قیاس سے بالا تر ہو۔ آخرت تم بھی تو اس زمین پر روز ازل سے نہیں ہو۔ تم سے پہلے اسی ملک میں دوسری قومیں آباد تھیں جن کی تاریخ تمہیں سنائی جا چکی ہے اور جن کے آثار اس ملک میں موجود ہیں۔ تمہاری ہی طرح خدا نے ان کی طرف بھی رسول بھیجے لیکن انہوں نے سرکشی کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ فنا کردیے گئے اور بالآخر تم ان کے وارث ہوئے تو جس خدا نے ان کو مٹا کر تمہیں ان کا وارث بنایا، اگر وہ تمہیں مٹا کر دوسروں کو تمہارا وارث بنادے تو کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے، تمہاری تو اپنی ہی تاریخ تمہارے اوپر حجت ہے۔ زبان کا ایک نکتہ : اس آیت میں زبان کا ایک نکتہ بھی قابل توجہ ہے فرمایا کہ ویستخلف من بعدکم ما یشاء حالانکہ بظاہر من یشاء ہونا تھا۔ اس لیے کہ ما کا غالب استعمال بےجان چیزوں ہی کے لیے ہے۔ میرے نزدیک من کی جگہ ما کا استعمال بےجان چیزوں ہی کے لیے ہے۔ میرے نزدیک من کی جگہ ما کا استعمال اللہ نے اپنی کامل قدرت کے اظہار اور قریش کے غرور پر ضرب لگانے کے لیے فرمایا ہے مطلب یہ ہے کہ تم اپنی قوت و سطوت پر کیا اترا رہے ہو، خدا کی قدرت تو وہ ہے کہ وہ تمہارے اس صحرا کی جس چیز کو چاہے تمہاری جگہ لینے کے لیے اٹھا کھڑی کرے۔ سیدنا مسیح نے بھی ایک جگہ بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ تم اس بات پر گھمنڈ نہ کرو کہ تم ابراہیم کی اولاد ہو، میرا خداوند چاہے تو ریگستان کے ذروں سے ابراہیم کے لیے اولاد کھڑی کرے، بعینہ یہی زور قرآن کے اس اسلوب میں مضمر ہے بلکہ قرآن کا اسلوب اپنی تعمیم کے پہلو سے زیادہ زور دار ہے۔
Top