Tadabbur-e-Quran - Al-An'aam : 29
وَ قَالُوْۤا اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں اِنْ : نہیں هِىَ : ہے اِلَّا : مگر (صرف) حَيَاتُنَا : ہماری زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم بِمَبْعُوْثِيْنَ : اٹھائے جانے والے
کہتے ہیں کہ زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اور مرنے کے بعد ہم اٹھائے نہیں جانے کے۔
29 تا 32: ان آیات میں کوئی ادبی یا نحوی اشکال نہیں ہے۔ مکذبین قرآن کے بعد اب یہ مکذبین قیامت کا انجام بیان کیا جا رہا ہے جو اس دنیا کی زندگی ہی کو زندگی سمجھتے تھے اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے یا تو قائل ہی نہ تھے یا اس کو بہت ہی بعید از قیاس و امکان چیز سمجھتے تھے۔ فرمایا کہ اگر تم اس وقت کو دیکھ پاتے تو دیکھتے کہ ایک دن یہ سب اپنے رب کے حضور لا کھڑے کیے جائیں گے اور ان سے سوال ہوگا کہ کیوں یہ دوبارہ اٹھا کھڑا کرنا اور قیامت کا آنا ایک امر واقعہ ثابت ہوا یا نہیں ؟ اس وقت وہ کہیں گے ہاں ہمارے رب کی قسم ! یہ تو ایک امر واقعہ ہے۔ حکم ہوگا کہ پھر اب اس دن کے انکار کی پاداش میں چکھو مزا عذاب کا۔ اس کے بعد مکذبین کو تنبیہ کے ساتھ اہل ایمان تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ جن شامت زدوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا وہ سخت گھاٹے میں پڑے، جب قیامت کی گھڑی اچانک آدھمکے گی تو یہ حسرت سے اپنے سر پیٹیں گے اور کہیں گے ہم نے دنیا کی زندگی پر ریجھ کر اس دن کی تیاریوں میں جو کوتاہی کی اس افسوس ! فرمایا کہ اس دن ان کی تصویر یہ ہوگی کہ سب اپنے اپنے گناہوں کے بوجھ اپنی اپنی پیٹھوں پر اٹھائے ہوں گے، نہ ان کے ساتھ ان کے اعوان و انصار ہوں گے نہ شرکا و شفعاء، نفسی نفسی کا عالم۔ لاتزر وازرۃ وزر اخری، کوئی جان بھی کسی دوسری جان کا بوجھ اٹھانے والی نہ بنے گی۔ پھر آگاہی دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا ہی برا ہوگا وہ بوجھ جس کو یہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اس لیے کہ یہ بوجھ ان کے سروں سے پھر کبھی اترنے والا نہیں۔ اس کے بعد آخرت سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے تسلی کا پہلو اور زیادہ واضح ہوگیا ہے۔ فرمایا کہ یہ دنیا کی زندگی جس نے انہیں آخرت سے غافل کردیا ہے کیا ؟ محض بےنتیجہ لہو و لعب، چند روزہ دل کا بہلاوا ! اصل شے تو دار آخرت اور اس کی زندگی ہے جو آخرت سے ڈرنے والوں کے لیے اس دنیا کی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ پس کیا تم سمجھتے نہیں۔ اگلی آیات 33-50 کا مضمون : پیغمبر ﷺ کو تسلی : اوپر کا مجموعہ آیات، جیسا کہ آپ نے دیکھا، تسلی کے مضمون پر ختم ہوا ہے۔ اب وہی تسلی کا مضمون آگے بڑھ رہا ہے۔ البتہ اس تسلی میں کچھ تیزی بھی آگئی ہے، اگرچہ یہ تیزی، جہاں تک پیغمبر ﷺ اور مسلمانوں کا تعلق ہے، اپنے اندر نہایت دلنواز ٹھنڈک رکھتی ہے اس لیے کہ اس میں عتاب و غضب کا جو پہلو ہے اس کا رخ تمام تر ان ہٹ دھرم منکرین کی طرف ہے جو درپے تھے کہ پیغبر کوئی معجزہ دکھائیں تب وہ مانیں گے کہ یہ پیغمبر ہیں اور جو کچھ وہ پیش کر رہے ہیں یہ خدا کا کلام و پیغام ہے۔ قدرتی طور پر پیغمبر ﷺ پر اور عام مسلمانوں پر بھی ان کے اس مطالبے کا اثر پڑتا تھا۔ خاص طور پر پیغبر ﷺ جو سراپا رافت و رحمت تھے اور اپنی قوم کے ایمان کے لیے اپنے اندر نہایت گہری تڑپ رکھتے تھے اس مطالبے سے متاثر ہو کر اس بات کے خواہش مند ہوجاتے تھے کہ ان کی طلب کے مطابق کوئی معجزہ ظاہر ہوجائے، شاید یہ اس طرح ایمان لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے تو پیغمبر ﷺ کو یہ تسلی دی کہ ان کا یہ مطالبہ تمہارے لیے وجہ پریشانی نہ بنے۔ یہ تمہاری تکذیب نہیں بلکہ آیات الٰہی کی تکذیب ہو رہی ہے تو جب خدا سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہے اور ان کا مطالبہ پورا کرنے کی قدرت کے باوجود، پورا نہیں کر رہا ہے تو تم کیوں پریشان ہو۔ تم سے پہلے جو انبیا آئے ان کی بھی اسی طرح تکذیب ہوئی، انہوں نے برداشت کیا اسی طرح تم برداشت کرو۔ سنت الٰہی یہی ہے۔ اس کے بعد نہایت تیکھے اور تند انداز میں فرمایا کہ اگر اللہ بجبر و زور ان کو ایمان کی راہ پر لانا چاہتا تو سب کو آن کے آن میں مومن و مسلم بنا دیتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے یہی پسند فرمایا کہ لوگ اپنی عقل و فہم سے کام لیں اور اپنے اختیار و ارادہ سے ایمان کی راہ اختیار کریں تو تم ان کے ایمان کی خواہش سے مغلوب ہو کر کیوں اس بات کے لیے بےقرار ہوتے ہو کہ لازماً کوئی ایسا معجزہ ظاہر ہو ہی جائے جو ان کو قائل کر کے خدا کے آگے جھکا ہی دے۔ خدا تو یہ بات نہیں چاہتا۔ تم اگر چاہتے ہو تو آسمان و زمین جہاں سے ہوسکے اس طرح کا معجزہ لا کر دکھا دو۔ اس کے بعد بتایا کہ کن صفات کے لوگ ایمان لائیں گے، کن صفات کے لوگ معجزے ہی مانگتے رہیں گے۔ پھر ان کے مطالبہ کے مطابق معجزہ نہ بھیجنے کی حکمت کی طرف اشارہ فرمایا اور اس کائنات میں قدرت کے جو بیشمار معجزات ہیں اور اللہ نے اپنی کتاب میں جو دلائل وبراہین بیان فرمائے ہیں ان کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ جو لوگ ان چیزوں سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں وہ گونگے بہرے اور اندھے ہیں۔ ان کی آنکھیں کوئی چیز بھی نہیں کھول سکتی۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر یہ لوگ کوئی نشانیٔ عذاب مانگتے ہیں تو ان سے پوچھو کہ اگر کوئی عذاب آیا یا قیامت ہی آگئی تو اس سے بچاؤ کا کیا سامان انہوں نے کر رکھا ہے ؟ اس وقت تو خدا خدا ہی پکاریں گے۔ اس سلسلے میں انبیاء اور ان کی قوموں کی تاریخ کی طرف اشارہ فرمایا کہ ان قومون کو ہم نے اپنی اس طرح کی نشانیاں دکھائیں لیکن انہوں نے ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تباہ کردی گئیں۔ اسی طرح اگر یہ کسی ظاہری یا باطنی پکڑ میں آگئے تو اس سے ان کو خدا کے سوا کون بچانے والا بنے گا ؟ آخر میں انبیاء کا فریضہ منصبی بتا دیا کہ ان کا کام انذار وتبشیر ہے نہ کہ معجزے اور عذاب کی نشانیاں دکھانا اور پیغمبر ﷺ کی زبان سے اعلان کرادیا کہ نہ میں خدا کے خزانوں کا مالک ہوں، نہ غیب جانتا ہوں، فرشتہ ہونے کا مدعی ہوں، بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو خدا کی طرف سے مجھ پر آتی ہے۔ جس کا جی چاہے اس کو مانے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ پر بہرحال ثابت ہے کہ خدا کے ہاں اندھے اور ڈھٹیارے دونوں ایک درجہ میں نہیں ہوں گے۔ اس روشنی میں آگے کی آیات تلاوت فرمائیے۔
Top