Tafseer-e-Saadi - Al-An'aam : 29
وَ قَالُوْۤا اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں اِنْ : نہیں هِىَ : ہے اِلَّا : مگر (صرف) حَيَاتُنَا : ہماری زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم بِمَبْعُوْثِيْنَ : اٹھائے جانے والے
اور کہتے ہیں کہ ہماری جو دنیا کی زندگی ہے بس یہی (زندگی) ہے اور ہم (مرنے کے بعد) پھر زندہ نہیں کئے جائیں گے۔
آیت 29 اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مشرکین کے حال اور جہنم کے سامنے ان کو کھڑے کئے جانے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : (ولو تری اذ وقفوا علی النار) ” اگر آپ دیکھیں جس وقت کھڑے کئے جائیں گے وہ دوزخ پر “ تاکہ ان کو زجر و توبیخ کی جائے۔۔۔ تو آپ بہت ہولناک معاملہ اور ان کا بہت برا حال دیکھتے نیز آپ یہ دیکھتے کہ یہ لوگ اپنے کفر و فسق کا اقرار کرتے ہیں اور تمنا کرتے ہیں کہ کاش ان کو دنیا میں پھر واپس بھیجا جائے (فقالوا یلیتنا نرد ولا نکذب بایت ربنا ونکون من المومنین) ” پس وہ کہیں گے، اے کاش ! ہم پھر بھیج دیئے جائیں اور ہم نہ جھٹلائیں اپنے رب کی آیتوں کو اور ہوجائیں ہم ایمان والوں میں سے۔ “ (بل بدالھم ما کانوا یخفون من قبل) ” بلکہ ظاہر ہوگیا ان کے لئے جو وہ چھپاتے تھے پہلے “ اس لئے کہ وہ اپنے دل میں اس حقیقت کو چھپاتے تھے کہ وہ جھوٹے ہیں اور ان کے دلوں کا جھوٹ بسا اوقات ظاہر ہوجاتا تھا۔ مگر ان کی فاسد اغراض ان کو حق سے روک دیتی تھیں اور ان کے دلوں کو بھلائی سے پھیر دیتی تھیں، وہ اپنی ان تمناؤں میں جھوٹے ہیں، ان کا مقصد محض اپنے آپ کو عذاب سے ہٹانا ہے۔ (ولو ردوا لعادوا لما نھوا عنہ وانھم لکذبون) ” اور اگر ان کو واپس لوٹا بھی دیا گیا تو یہ دوبارہ وہی کچھ کریں گے جس سے ان کو روکا گیا ہے اور بیشک یہ سخت جھوٹے ہیں۔ “ (وقالوا ) ” اور وہ کہتے ہیں۔ “ یعنی مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار کرنے والے کہتے ہیں (ان ھی الا حیاتنا الدنیا) ” ہماری جو دنیا کی زندگی ہے بس یہی (زندگی) ہے۔ “ یعنی حقیقت حال یہ ہے کہ ہمیں وجود میں لانے کا اس دنیا کی زندگی کے سوا اور کوئی مقصد نہیں (وما نحن بمبعوثین) ” ہمیں مرنے کے بعد دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا۔ “
Top