Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 29
وَ قَالُوْۤا اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں اِنْ : نہیں هِىَ : ہے اِلَّا : مگر (صرف) حَيَاتُنَا : ہماری زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم بِمَبْعُوْثِيْنَ : اٹھائے جانے والے
کہتے ہیں کہ زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور مرنے کے بعد ‘ ہم اٹھائے نہیں جائیں گے
ارشاد ہے : وَقَالُوْٓااِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ ۔ (الانعام : 29) (کہتے ہیں کہ زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور مرنے کے بعد ‘ ہم اٹھائے نہیں جائیں گے) آخرت کا انکار ہی اصل میں ہمیشہ سے انسانی بگاڑ کی بنیادی وجہ رہی ہے یعنی اہل مکہ اور باقی انسانوں کے بگاڑ کے نتیجے میں ان کے ہولناک انجام کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس زندگی کے بعد کوئی اور زندگی نہیں۔ یہ شب و روز کا سلسلہ جو چل رہا ہے موت اس کا اختتام ہے اور زندگی کی اس شام کے بعد کسی اور صبح کے طلوع ہونے کا تصور بھی محال ہے اور اگر کچھ لوگ اس کو کسی حد تک مانتے بھی تھے تو یقین انھیں بھی نہیں تھا کہ قیامت واقعی آئے گی۔ اپنے اس اعتقاد کی وجہ سے وہ یہ بات سننے کے بھی روادار نہ تھے کہ اپنی زندگی کے معمولات میں اس لیے کمی بیشی کی جائے اور اپنے اختیار پر اس لیے کچھ پابندیاں قبول کرلی جائیں کہ قیامت کے دن چونکہ حساب دینا ہے ‘ اس لیے اگر ہم نے ان پابندیوں کو قبول نہ کیا اور من مرضی کی زندگی اختیار کرتے رہے تو وہاں کیا جواب دے سکیں گے۔ جب ایسی کوئی بات ان سے کہی جاتی تھی تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے تھے اور کہتے تھے کہ جب ایسی کسی زندگی کا تصور ہمارے نزدیک ممکن ہی نہیں تو تم آخرہ میں اس سے ڈراتے کیوں ہو ؟ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ موت کے بعد قبر میں جانا ہے اور قبر میں مٹی کے ساتھ مل کر مٹی ہوجانا ہے۔ دوبارہ جی اٹھنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو جواب دہی کیسے ہوگی ؟ جواب دہی کا مرحلہ تو جب آئے گا ‘ جب ہم واقعی دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور واقعی کوئی عدالت قائم ہوگی۔ جب یہ ساری انہونی باتیں ہیں تو تم ہماری زندگی کا عیش مکدر کیوں کرتے ہو۔ یہیں کے غم اصل غم ہیں اور یہیں کی خوشیاں اصل خوشیاں ہیں۔ جس نے ان غموں پر قابو پا لیا اور ان خوشیوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ‘ اس نے گویا زندگی کی کامیابیاں حاصل کرلیں اور جو یہاں کی خوشیاں حاصل کرنے میں ناکام رہا ‘ محرومیاں ایسے شخص کا مقدر ہوں گی۔ اس لیے ہمیں جو کچھ کرنا ہے ‘ اسی دنیا میں اور اسی دنیا کے لیے کرنا ہے۔ ہمارا مقصد اس دنیا اور اس زندگی میں خوشیوں کا حصول اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنا ہے۔ اس میں اس بحث کی کوئی گنجائش نہیں کہ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز۔ کیا ہونا چاہیے ‘ اور کیا نہیں ہونا چاہیے یہ سراسر کتابی باتیں ہیں اور کمزور لوگوں کے بہلاوے ہیں۔ جس شخص کو زندگی پر سوار ہونے کی قدرت حاصل ہے ‘ اسے اپنی قدرت اور قوت کے بل بوتے پر زندگی کی ہر خوشی کو حاصل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس لیے تم بار بار آخرت کے تذکرے سے ہمارے رنگ میں بھنگ مت ڈالو۔ یہ کیا مصیبت ہے کہ ہم سونا چاہتے ہیں تو تم ہمیں آنے والے دن کا تصور دے کر جگا دیتے ہو۔ ہم دولت کے حصول کے لیے کوئی بھی ذریعہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ‘ جس سے ایک بڑا دولت کا انبار ہمارے ہاتھ آئے اور تم جواب دہی کا تصور لے کر بیٹھ جاتے ہو۔ ہم تو تمہارے ان تصورات سے تنگ آگئے۔ اس لیے مہربانی کرو ‘ ہمیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے دو یہ وہ تصورات تھے ‘ جن کے تحت وہ زندگی گزارتے تھے اور آج کا انسان بھی انہی تصورات کے ساتھ جی رہا ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی پابندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کا معبود مادہ ہے اور دولت وہ آستانہ ہے جس پر اس کا سر جھکتا ہے اور عہدہ و منصب ‘ وہ قبلہ مقصود ہے ‘ جسکا وہ زندگی بھر طواف کرتا رہتا ہے اور قوت و لذت وہ منزل ہے ‘ جس کے حصول کے لیے وہ ہمیشہ سرگرم سفر رہتا ہے۔ چناچہ یہی بات مشرکینِ مکہ کہتے تھے کہ ہماری زندگی تو یہ دنیا کی زندگی ہے ہمیں یقین ہے کہ ہم دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے۔ اس لیے ہم تمہاری کسی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ چناچہ اگلی آیت کریمہ میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ قیامت کے انکار کی صورت میں ان نادانوں کے ساتھ قیامت کے دن کیا گزرنے والی ہے۔
Top