Urwatul-Wusqaa - Al-An'aam : 29
وَ قَالُوْۤا اِنْ هِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا وَ مَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ
وَقَالُوْٓا : اور وہ کہتے ہیں اِنْ : نہیں هِىَ : ہے اِلَّا : مگر (صرف) حَيَاتُنَا : ہماری زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَمَا : اور نہیں نَحْنُ : ہم بِمَبْعُوْثِيْنَ : اٹھائے جانے والے
اور انہوں نے کہا کہ زندگی اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہمیں پھر اٹھنا نہیں ہے
آج ہاتھ جوڑنے والے کل تک تو اس دن کو تسلیم نہیں کرتے تھے : 44: قوم کے سرداروں کا حافظہ بڑا کمزور ہوتا ہے اگر یہ بات درست نہیں تو پھر وہ پر لے درجے کے ڈھیٹ ہوتے ہیں اور ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے منہ پر ان کو کوئی ڈھیٹ نہیں کہے گا اور پیٹھ پیچھے جو ہو سو ہوتا رہے اور دراصل یہی ان کے ڈھیٹ ہونے کی نشانی ہے ۔ انبیائے کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کرو تم دیکھو گے ہر پیغمبر کی مخالفت کے لئے اٹھنے والے اصل لوگ وہ تھے جنہیں قوم کی سرداری حاصل تھی ۔ ان سب کی مشترک گمراہی یہ تھی کہ وہ آخرت کے منکر تھے اس لئے خدا کے سامنے کسی ذمہ داری اور جواب دہی کا انہیں اندیشہ نہ تھا اور اسی لئے وہ دنیا کی اس زندگی پر فریفتہ تھے اور مادی فلاح و بہبود سے بلند تر کسی قدر کے قائل نہ تھے ۔ پھر اس گمراہی میں جس چیز نے ان کو بالکل ہی غرق کردیا تھا وہ ان کی خوشحالی اور آسودگی تھی جسے وہ اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھتے تھے اور یہ ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ وہ عقیدہ ، وہ نظام اخلاق اور وہ طرززندگی غلط بھی ہو سکتا ہے جس پر چل کرا نہیں دنیا میں یہ کچھ کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں۔ انسانی تاریخ بار بار اس حقیقت کو دہراتی رہی ہے کہ دعوت حق کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ انہیں تین خصوصیات کے حامل لوگ ہوتے ہیں اور یہی اس وقت کا منظر بھی تھا جب کہ نبی اعظم و آخر ﷺ مکہ میں اصلاح کی سعی فرما رہے تھے ۔ قرآن کریم نے دوسری جگہ ان کی اس حالت کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ : ؟ ؟ ؟ ” اگر تم نے اپنے ہی جیسے آدمی کی اطاعت کرلی (جو تمہاری طرح کھاتا پیتا ہے) تو بس سمجھ لو کہ تم تباہ ہوئے۔ تم سنتے ہو یہ کیا کہتا ہے ؟ یہ تمہیں امید دلاتا ہے کہ جب مرنے کے بعد محض مٹی اور ہڈیوں کا چورا ہوجائے گا تو پھر تمہیں موت سے نکالا جائے گا۔ کیسی [ 1 ] انہونی بات ہے ، کیسی انہونی بات ہے جس کی تمہیں توقع دلاتا ہے۔ زندگی تو بس یہی زندگی ہے جو دنیا میں ہم بسر کرتے ہیں ، یہیں مرتے ہیں یہیں جیتے ہیں ، ایسا کبھی ہونے والا نہیں کہ مر کر پھر جی اٹھیں۔ کچھ نہیں یہ ایک مفتری آدمی ہے جس نے اللہ کے نام سے جھوٹ موٹ بات بنا دی ، ہم کبھی اس پر یقین کرنے والے نہیں۔ “ (المومنون 23 : 34 تا 38) اور یہی مضمون سورة الجاثیہ کی آیت 24 میں بیان ہوا اور یہی بات انہوں نے اس جگہ بیان کی کہ ” زندگی اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہمیں پھر اٹھنا نہیں ہے۔ “
Top