Tadabbur-e-Quran - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور ہم نے لوط کو بھیجا۔ جب کہ اس نے اپنی قوم سے کہا۔ کیا تم کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو ! تم سے پہلے دنیا کے کسی نے بھی اس کا ارتکاب نہیں کیا۔
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ۔۔ قومِ لوط اور حضرت لوط ؑ کی سرگزشت : حضرت لوط حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے ہیں۔ یہ جس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے وہ زشام کے جنوبی علاقہ میں دریائے اردن کے ارد گرد آباد تھی۔ ان کے ذکر میں اسلوب بیان اس سے ذرا مختلف ہے جو حضرت ہود اور حضرت صالح کے ذکر میں ہے۔ ان دونوں حضرات کو تو اخاھم ھودا اور اخاھم صالحا کے الفاظ سے ان کی قوموں کی طرف منسوب فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت کے اعتبار سے تو یہ لوگ ان کی قوم تھے لیکن باعتبار نسبت اور قبیلہ حضرت لوط ان سے الگ تھے۔ قرا ان نے اس معمولی فرق کو بھی اپنے اسلوب بیان سے واضح فرما دیا۔ رسولوں کے باب میں عام سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ اسی قوم کے اندر سے ہوتے ہیں جس کی طرف بھیجے جاتے ہیں۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ قوم ان کے ماضی و حاضر، ان کے اخلاق و کردار اور ان کی زبان سے اچھی طرح آشنا ہو تاکہ اجنبیت و غیرت موجب و حشت نہ بنے۔ یہ چیز جس طرح نسبی تعلق سے حاصل ہوسکتی ہے اسی طرح کسی قوم کے اندر طویل قیام سے بھی حاصل ہوسکتی ہے۔ حضرت لوط چونکہ اسی قوم کے اندر رہ بس گئے تھے بلکہ قرینہ شاہد ہے کہ انہوں نے انہی کے اندر شادی بھی کرلی تھی اس وجہ سے وہ قوم کے لیے بمنزلہ ایک فرد قوم کے تھے۔ ان کی تربیت، جیسا کہ تورات سے معلوم ہوتا ہے، حضرت ابراہیم نے فرمائی تھی۔ ان کی ان خوبیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا یہ بعینہ وہی صورت حال ہے جو حضرت موسیٰ کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں۔ باوجودیکہ حضرت موسیٰ قوم فرعون کے اندر سے نہیں تھے لیکن ایک طویل مدت تک ان کے اندر رہے تھے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو قوم فرعون کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۔ الفاحشۃ، کھلی ہوئی بدکاری و بےحیائی کو کہتے ہیں اور استفہام یہاں اظہار نفرت و کراہت کے مفہوم میں ہے۔ اس فاحشہ کا یہاں نام نہیں لیا ہے جو اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ بےحیائی وقت کی سوسائٹی میں اس درجہ عام تھی کہ نام لیے بغیر بھی ہر شخص سجھتا تھا کہ اس سے مراد کیا ہے۔ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا، فاحشۃ کی صفت نہیں ہے۔ اگر یہ صفت ہوتا تو معروف قاعدہ زبان کے مطابق فاحشہ کو نکرہ ہونا تھا۔ میرے نزدیک یہ الگ جملہ ہے۔ حضرت لوط نے یہاں درحقیقت دو مختلف پہلوؤں سے اس برائی پر اظہار نفرت فرمایا ہے۔ پہلے تو فرمایا کہ ایسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو، جس کا بےحیائی ہونا ہر عقل سلیم پر واضح ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ حرکت شنیع تو تم سے پہلے کسی قوم نے نہیں کی۔ مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ سے یہ بات لازم نہیں آتی ہے کہ قوم لوط سے پہلے یہ حرکت شنیع کسی ایک فرد سے بھی صادر نہ ہوئی ہو۔ ہم دوسری جگہ واضح کرچکے ہیں کہ لفظ احد جمع کے مفہوم میں بھی آتا ہے۔ مثلاً لا نفرق بین احد من رسلہ، یا، لستن کا احد من النساء، اس وجہ سے اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم سے پہلے کوئی شامت زدہ سوسائٹی ایسی نہیں گزری جس نے اس غلاظت کو تہاری طرح اوڑھنا بچھونا بنایا ہو۔ عملِ قوم لوط کی سنگینی : یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اوپر جن رسولوں کی دعوت کا ذکر ہوا ہے ان میں سے ہر ایک کی دعوت کا آغاز توحید سے ہوا ہے لیکن حضرت لوط نے توحید کی دعوت سے آغاز کرنے کی بجائے سب سے پہلے قوم کی اس بےحیائی کو موضوع بحث بنایا۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت لوط ؑ کی قوم کے اندر شرک کی برائی موجود نہیں تھی ؟ اگر موجود تھی تو حضرت لوط ؑ نے اس کو کیوں نظر انداز فرمایا ؟ ہمارے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ برائی اور برائی میں فرق ہوت ہے۔ ایک برائی تو وہ ہوتی ہے، جو خواہ کتنی ہی سنگین ہو، لیکن وہ انسانی عوارض میں سے ہے اور انسانوں کے اندر پائی جاتی ہے یا پائی جاسکتی ہے، دوسری برائی وہ ہے جس کا گھننا پن اس قدر واضح ہے کہ کسی انسان کے اندر عادت کی حیثیت سے اور کسی سوسائٹی کے اندر فیشن کی حیثیت سے اس کا پایا جانا بغیر اس کے ممکن نہیں کہ اس انسان یا اس سوسائٹی کی فطرت بلکل مسخ ہوگئی ہو۔ جہاں اس طرح کے لوگوں سے سابقہ ہو وہاں اصل قابل توجہ چیز وہی برائی ہوتی ہے، دوسری باتیں خواہ کتینی ہی اہمیت رکھنے والی ہوں، سب ثانوی درجے میں آجاتی ہیں۔ آپ ایک شخص کے پاس اس کی اصلاح کی غرض سے جائیں اور دیکھیں کہ وہ کھڑا ہوا غلیظ کھا رہا ہے تو آپ اس کو ایمان و اسلام کی تلقین کریں گے یا سب سے پہلے اس کی یہ عبرت انگیز حالت آپ کو متوجہ کرے گی ؟ حضرت لوط ؑ کو اسی صورت حال سے سابقہ پیش آیا۔ ان کی قوم کے اندر شرک و کفر کی برائی بھی موجود تھی، ور دوسری تمام برائیاں بھی، جو شرک و کفر کے لوازم میں سے ہیں، موجود تھیں لیکن جن کی فطرت اتنی اوندھی ہوگئی ہو کہ مرد مردوں ہی کو شہوت رانی کا محل بنائے ہوئے ہوں ان کو تو سب سے پہلے اس غلاظت کی دلدل سے نکالنے کی ضرورت تھی، ان سے کوئی دوسری بات کرنے مرحلہ تو بہرحال اس کے بعد ہی آسکتا تھا۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ قرآن کی نگاہ میں عمل قوم لوط کی سنگینی کا کیا حال ہے اور پھر ذرا یاد کیجیے اس واقعہ کو کہ برطانوی پارلیمنٹ نے پچھلے دنوں اپنے ایک قانون کے ذریعہ سے اپنی قوم کے لیے اس معلون فعل کو بالکل مباح کردیا ہے۔ اللہ کے حلم کی کوئی حد نہیں ہے۔ وہ مہلت دیتا ہے تو بڑی طویل مہلت دتا ہے لیکن برطانوی پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کر کے خدا کے عذاب کے لیے اپنے دروازے چوپت کھول دیے ہیں اب دیکھیے یہ مدت مہلت کتنی دراز ہوتی ہے۔
Top