Tafheem-ul-Quran - Al-Hajj : 60
ذٰلِكَ١ۚ وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْهِ لَیَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو۔ جس عَاقَبَ : ستایا بِمِثْلِ : جیسے مَا عُوْقِبَ : اسے ستایا گیا بِهٖ : اس سے ثُمَّ : پھر بُغِيَ عَلَيْهِ : زیادتی کی گئی اس پر لَيَنْصُرَنَّهُ : ضرور مدد کریگا اسکی اللّٰهُ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَعَفُوٌّ : البتہ معاف کرنیوالا غَفُوْرٌ : بخشنے والا
یہ تو ہے اُن کا حال، اور جو کوئی بدلہ لے ، ویسا ہی جیسا اُس کے ساتھ کیا گیا، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ 104 اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ 105
سورة الْحَجّ 104 پہلے ان مظلوموں کا ذکر تھا جو ظلم کے مقابلے میں کوئی جوابی کارروائی نہ کرسکے ہوں، اور یہاں ان کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں۔ امام شافعی ؒ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ قصاص اسی شکل میں لیا جائے گا جس شکل میں ظلم کیا گیا ہو۔ مثلاً کسی شخص نے اگر آدمی کو ڈبو کر مارا ہے تو اسے بھی ڈبو کر مارا جائے گا، اور کسی نے جلا کر مارا ہے تو اسے بھی جلا کر مارا جائے گا۔ لیکن حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ قاتل نے قتل خواہ کسی طریقے سے کیا ہو، اس سے قصاص ایک ہی معروف طریقے پر لیا جائے گا۔ سورة الْحَجّ 105 اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ ظلم کے مقابلے میں جو کشت و خون کیا جائے وہ اللہ کے ہاں معاف ہے، اگرچہ کشت و خون بجائے خود اچھی چیز نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ جس کے تم بندے ہو، عفو و درگزر کرنے والا ہے، اس لیے تم کو بھی، جہاں تک بھی تمہارے بس میں ہو، عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے۔ اہل ایمان کے اخلاق کا زیور یہی ہے کہ وہ حلیم، عالی ظرف اور متحمل ہوں۔ بدلہ لینے کا حق انہیں ضرور حاصل ہے، مگر بالکل منتقمانہ ذہنیت اپنے اوپر طاری کرلینا ان کے لیے موزوں نہیں ہے۔
Top