Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 13
وَ یَضِیْقُ صَدْرِیْ وَ لَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰى هٰرُوْنَ
وَيَضِيْقُ : اور تنگ ہوتا ہے صَدْرِيْ : میرا سینہ (دل) وَلَا يَنْطَلِقُ : اور نہیں چلتی لِسَانِيْ : میری زبان فَاَرْسِلْ : پس پیغام بھیج اِلٰى : طرف هٰرُوْنَ : ہارون
میرا سینہ گھُٹتا ہے اور میری زبان نہیں چلتی۔ آپ ہارونؑ کی طرف رسالت بھیجیں۔ 10
سورة الشُّعَرَآء 10 سورة طٰہٰ رکوع 2، اور سورة قصص رکوع 4 میں اس کی جو تفصیل آئی ہے اسے ان آیات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ اول تو اتنے بڑے مشن پر تنہا جاتے ہوئے گھبراتے تھے (میرا سینہ گھٹتا ہے کے الفاظ اسی کی نشان دہی کرتے ہیں) ، دوسرے ان کو یہ بھی احساس تھا کہ وہ روانی کے ساتھ تقریر نہیں کرسکتے۔ اس لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ حضرت ہارون کو ان کے ساتھ مددگار کی حیثیت سے نبی بنا کر بھیجا جائے کیونکہ وہ زیادہ زبان آور ہیں، جب ضرورت پیش آئے گی تو وہ ان کی تائید و تصدیق کر کے ان کی پشت مضبوط کریں گے۔ ممکن ہے کہ ابتداءً حضرت موسیٰ کی درخواست یہ رہی ہو کہ آپ کے بجائے حضرت ہارون کو اس منصب پر مامور کیا جائے، اور بعد میں جب آپ نے محسوس کیا ہو کہ مرضی الٰہی آپ ہی کو مامور کرنے کی ہے تو پھر یہ درخواست کی ہو کہ انہیں آپ کا وزیر اور مددگار بنایا جائے۔ یہ شبہہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یہاں حضرت موسیٰ ان کو وزیر بنانے کی درخواست نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ عرض کر رہے ہیں یہ فَاَرْسِلْ الیٰ ھَارُوْنَ ، " آپ ہارون کی طرف رسالت بھیجیں "۔ اور سورة طٰہٰ میں وہ یہ گزارش کرتے ہیں کہ وَجْعَلْ لِّیْ وَزِیْراً مِّنْ اَھْلِیْ ھَارُوْنَ اَخِیْ ، " میرے لیے میرے خاندان میں سے ایک وزیر مقرر فرما دیجیے، میرے بھائی ہارون کو "۔ نیز سورة قصص میں وہ یہ عرض کرتے ہیں کہ وَاَخِیْ ھٰرُوْنَ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَاناً فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْاءً یُّصَدِّقُنِیْ ، " میرے بھائی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہیں لہٰذا انہیں مددگار کے طور پر میرے ساتھ بھیجیے تاکہ وہ میری تصدیق کریں "۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ غالباً یہ مؤخر الذکر دونوں درخواستیں بعد کی تھیں، اور پہلی بات وہی تھی جو حضرت موسیٰ سے اس سورے میں نقل ہوئی ہے۔ بائیبل کا بیان اس سے مختلف ہے۔ وہ کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے قوم فرعون کی تکذیب کا خوف اور اپنی زبان کے کند ہونے کا عذر پیش کر کے یہ منصب قبول کرنے سے بالکل ہی انکار کردیا تھا " اے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں۔ کسی اور کے ہاتھ سے جسے تو چاہے یہ پیغام بھیج "۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بطور خود حضرت ہارون کو ان کے لیے مددگار مقرر فرما کر انہیں اس بات پر راضی کیا کہ دونوں بھائی مل کر فرعون کے پاس جائیں (خروج باب 4۔ آیات ا تا 71) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ ، حاشیہ 19۔
Top