Tafheem-ul-Quran - An-Naml : 22
فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ
فَمَكَثَ : سو اس نے دیر کی غَيْرَ بَعِيْدٍ : تھوڑی سی فَقَالَ : پھر کہا اَحَطْتُّ : میں نے معلوم کیا ہے بِمَا : وہ جو لَمْ تُحِطْ بِهٖ : تم کو معلوم نہیں وہ وَجِئْتُكَ : اور میں تمہارے پاس لایا ہوں مِنْ : سے سَبَاٍ : سبا بِنَبَاٍ : ایک خبر يَّقِيْنٍ : یقینی
کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اُس نے آکر کہا”میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے عِلم میں نہیں ہیں۔ میں سَبا کے متعلق یقینی اطلاع لے کر آیا ہوں۔29
سورة النمل 29 سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی جس کا دار الحکومت مارب موجودہ یمن کے دار السلطنت صنعاء سے 55 میل بجانب شمال مشرق واقع تھا۔ اس کا زمانہ عروج معین کی سلطنت کے زوال کے بعد تقریبا 1100 ق م سے شروع ہوا اور ایک ہزار سال تک یہ عرب میں اپنی عظمت کے ڈنکے بجاتی رہی، پھر 115 ق م میں جنوبی عرب کی دوسری مشہور قوم حمیر نے اس کی جگہ لے لی، عرب میں یمن اور حضر موت، اور افریقہ میں حبش کے عالقے پر اس کا قبضہ تھا، مشرقی افریقہ، ہندوستان، مشرق بعید اور خود عرب کی جتنی تجارت مصر و شام اور یونان و روم کے ساتھ ہوتی تھی وہ زیادہ تر انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اسی وجہ سے یہ قوم قدیم زمانہ میں اپنی دولت کے لیے نہایت مشہور تھی، بلکہ یونانی مورخین تو اسے دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم کہتے ہیں تجارت کے علاوہ ان کی خوشحالی کا بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر ایک بہترین نظام آب پاشی قائم کر رکھا تھا، جس سے ان کا پورا علاقہ جنت بنا ہوا تھا، ان کے ملک کی اس غیر معمولی سرسبزی و شادابی کا ذکر یونانی مورخین نے بھی کیا ہے اور سورة سبا کے دوسرے رکوع میں قرآن مجید بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہدہد کا یہ بیان کہ " میں نے وہ معلومات حاصل کی ہیں جو آپ کے علم میں نہیں ہیں "۔ یہ معنی نہیں رکھتا کہ حضرت سلیمان سبا سے بالکل ناواقف تھے، ظاہر ہے کہ فلسطین و شام کے جس فرمانروا کی سلطنت بحر احمر کے شمالی کنارے (خلیج عقبہ) تک پہنچی ہوئی تھی وہ اسی بحر احمر کے جنوبی کنارے (یمن) کی ایک ایسی قوم سے ناواقف نہ ہوسکتا تھا جو بین الاقوامی تجارت کے ایک اہم حصے پر قابض تھی، علاوہ ازیں زبور سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان سے بھی پہلے ان کے والد ماجد حضرت داؤد سبا سے واقف تھے، ان کی دعا کے یہ الفاظ زبور میں ہمیں ملتے ہیں " اے خدا، بادشاہ (یعنی خود حضرت داؤد) کو اپنے احکام اور شاہزادے (یعنی حضرت سلیمان) کو اپنی صداقت عطا فرما۔ ترسیس اور جزیروں کے بادشاہ نذریں گھزاریں گے، سبا اور شیبا (یعنی سبا کی یمنی اور حبشی شاخوں) کے بادشاہ ہدیے لائیں گے "۔ (72۔ 1۔ 2 و 1۔ 11) اس لیے ہدہد کے قول کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوم سبا کے مرکز میں جو چشم دید حالات میں دیکھ کر آیا ہوں وہ ابھی تک آپ کو نہیں پہنچے ہیں۔
Top