Fi-Zilal-al-Quran - An-Naml : 7
اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّیْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِیْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِیْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ
اِذْ : جب قَالَ : کہا مُوْسٰي : موسیٰ لِاَهْلِهٖٓ : اپنے گھر والوں سے اِنِّىْٓ : بیشک میں اٰنَسْتُ : میں نے دیکھی ہے نَارًا : ایک آگ سَاٰتِيْكُمْ : میں ابھی لاتا ہوں مِّنْهَا : اس کی بِخَبَرٍ : کوئی خبر اَوْ اٰتِيْكُمْ : یا لاتا ہوں تمہارے پاس بِشِهَابٍ : شعلہ قَبَسٍ : انگارہ لَّعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَصْطَلُوْنَ : تم سینکو
(اِنہیں اُس وقت کا قصہ سُناوٴ)جب موسیٰؑ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ8”مجھے ایک آگ سی نظر آئی ہے، میں ابھی یا تو وہاں سے کوئی خبر لے کر آتا ہوں یا کوئی انگارا چُن لاتا ہوں تاکہ تم لوگ گرم ہو سکو9۔“
سورة النمل 8 یہ اس وقت کا قصہ ہے جب حضرت موسیٰ ؑ مدین میں آٹھ دس سال گزارنے کے عبد اپنے اہل و عیال کو ساتھ لیکر کوئی ٹھکانا تلاش کرنے جارہے تھے، مدین کا علاقہ خلیج عقبہ کے کنارے عرب اور جزیرہ نمائے سینا کے سواحل پر واقع تھا (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعرء، حاشیہ 115) وہاں سے چل کر حضرت موسیٰ جزیرہ نمائے سینا کے جنوبی حصے میں اس مقام پر پہنچے جو اب کوہ سینا اور جبل موسیٰ کہلاتا ہے اور نزول قرآن کے زمانہ میں طور کے نام سے مشہور تھا، اسی کے دامن میں وہ واقعہ پیش آیا جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے۔ یہاں جو قصہ بیان کیا جارہا ہے اس کی تفصیلات اس سے پہلے سورة طہ (رکوع 1) میں گزر چکی ہیں اور آگے سورة قصص (رکوع 4) میں آرہی ہیں۔ سورة النمل 9 فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رات کا وقت اور جاڑے کا موسم تھا، اور حضرت موسیٰ ایک اجنبی علاقے سے گزر رہے تھے جس سے انہیں کچھ زیادہ واقفیت نہ تھی، اس لیے انہوں نے اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ میں جاکر معلوم کرتا ہوں یہ کون سی بستی ہے جہاں آگ جل رہی ہے، آگے کدھر راستے جاتے ہیں اور کون کون سی بستیاں قریب ہیں۔ تاہم اگر وہ بھی ہماری ہی طرح کوئی چلتے پھرتے مسافر ہوئے جن سے کوئی معلومات حاصل نہ ہوسکیں تو کم از کم میں کچھ انگارے ہی لے آؤں گا کہ تم لوگ آگ جلا کر چکھ گرمی حاصل کرسکو۔ یہ مقام جہاں حضرت موسیٰ نے جھاڑی میں آگ لگی ہوئی دیکھی تھی کوہ طور کے دامن میں سطح سمندر سے تقریبا 5 ہزار فیٹ کی بلندی پر واقع ہے، یہاں رومی سلطنت کے پہلے عیسائی بادشاہ قسطنطین نے 365 کے لگ بھگ زمانے میں ٹھیک اس مقام پر ایک کنیسہ تعمیر کرادیا تھا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس کے دو سو برس بعد قیصر جسٹینین نے یہاں ایک دیر (Monastery) تعمیر کرایا جس کے اندر قسطنطین کے بنائے ہوئے کنیسہ کو بھی شامل کرلیا، یہ دیر اور کنیسہ دونوں آج تک موجود ہیں اور یونانی کلیسا (Greek Orthodox Church) کے راہبوں کا ان پر قبضہ ہے، میں نے جنوری 1960 ء میں اس مقام کی زیارت کی ہے، مقابل کے صفحہ پر اس مقام کی کچھ تصاویر ملاحظہ ہوں۔
Top