Tafheem-ul-Quran - Al-Ankaboot : 49
بَلْ هُوَ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ١ؕ وَ مَا یَجْحَدُ بِاٰیٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ
بَلْ هُوَ : بلکہ وہ (یہ) اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ : واضح آیتیں فِيْ صُدُوْرِ : سینوں میں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہیں اُوْتُوا الْعِلْمَ ۭ : علم دیا گیا وَمَا يَجْحَدُ : اور نہیں انکار کرتے بِاٰيٰتِنَآ : ہماری آیتوں کا اِلَّا : مگر (صرف) الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
دراصل یہ روشن نشانیاں ہیں ان لوگوں کے  دلوں میں جنہیں علم بخشا گیا ہے،89 اور ہماری آیات کا انکا ر نہیں کرتے مگر وہ جو ظالم ہیں
سورة العنکبوت 89 یعنی ایک امی کا قرآن جیسی کتاب پیش کرنا اور یکایک ان غیر معمولی کمالات کا مظاہرہ کرنا جن کے لیے کسی سابقہ تیاری کے آثار کبھی کسی کے مشاہدے میں نہیں آئے۔ یہی دانش و بینش رکھنے والوں کی نگاہ میں اس کی پیغمبری پر دلالت کرنے والی روشن ترین نشانیاں ہیں، دنیا کی تاریخی ہستیوں میں سے جس کے حالات کا بھی جائزہ لیا جائے، آدمی اس کے اپنے ماحول میں ان اسباب کا پتہ چلا سکتا ہے جو اس کی شخصیت بنانے اور اس سے ظاہر ہونے والے کمالات کے لیے اس کو تیار کرنے میں کار فرما تھے۔ اس کے ماحول اور اس کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی میں ایک کھلی مناسبت پائی جاتی ہے۔ لیکن محمد ﷺ کی شخصیت جن حیرت انگیز کمالات کی مظہر تھی ان کا کوئی ماخذ آپ کے ماحول میں تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں نہ اس وقت کے عربی معاشرے میں اور نہ گردو پیش کے جن ممالک سے عرب کے تعلقات تھے ان کے معاشرے میں کہیں دور دراز سے مناسبت رکھتے ہوں۔ یہی حقیقت ہے جس کی بنا پر یہاں فرمایا گیا ہے کہ محمد ﷺ کی ذات ایک نشانی نہیں بلکہ بہت سی روشن نشانیوں کا مجموعہ ہے۔ جاہل آدمی کو اس میں کوئی نشانی نظر نہ آتی ہو تو نہ آئے، مگر جو لوگ علم رکھنے والے ہیں وہ ان نشانیوں کو دیکھ کر اپنے دلوں میں قائل ہوگئے ہیں کہ یہ شان ایک پیغمبر ہی کی ہوسکتی ہے۔
Top