Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو 118 ،  ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیتیں دی تھیں ، پھر اللہ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے اس کی برأت فرمائی اور وہ اللہ کے نزدیک با عزت تھا 119
سورة الْاَحْزَاب 118 یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ قرآن مجید میں " اے لوگو جو ایمان لائے ہو " کے الفاظ سے کہیں تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا گیا ہے، اور کہیں مسلمانوں کی جماعت بحیثیت مجموعی مخاطب ہے جس میں مومن اور منافق اور ضعیف الایمان سب شامل ہیں، اور کہیں روئے سخن خالص منافقین ہی کی طرف ہے۔ منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو الذین اٰمنوا کہہ کر جب مخاطب کیا جاتا ہے تو اس سے مقصود ان کو شرم دلانا ہوتا ہے کہ تم لوگ دعویٰ تو ایمان لانے کا کرتے ہو اور حرکتیں تمہاری یہ کچھ ہیں۔ سیاق وسباق پر غور کرنے سے ہر جگہ بآسانی معلوم ہوجاتا ہے کہ کس جگہ الذین اٰمنوا سے مراد کون ہیں۔ یہاں سلسلۂ کلام صاف بتارہا ہے کہ مخاطب عام مسلمان ہیں۔ سورة الْاَحْزَاب 119 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ " اے مسلمانو ! تم یہودیوں کی سی حرکتیں نہ کرو۔ تمہاری روش اپنے نبی کے ساتھ وہ نہ ہونی چاہیے جو بنی اسرائیل کی روش موسیٰ ؑ کے ساتھ تھی "۔ بنی اسرائیل خود مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ان کے سب سے بڑے محسن تھے۔ جو کچھ بھی یہ قوم بنی، انہی کی بدولت بنی، ورنہ مصر میں اس کا انجام ہندوستان کے شودروں سے بھی بدتر ہوتا۔ لیکن اپنے اس محسن اعظم کے ساتھ اس قوم کا جو سلوک تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے با ئیبل کے حسب ذیل مقامات پر صرف ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہے کتاب خروج۔ 5 20۔ 21۔ 14 11۔ 12۔ 3۔ 17 3۔ 4 کتاب گنتی۔ 11 1۔ 15۔ 14 1۔ 10۔ 16 مکمّل۔ 20 1۔ 5 قرآن مجید بنی اسرائیل کی اسی محسن کشی کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ محمد ﷺ کے ساتھ یہ طرز عمل اختیار کرنے سے بچو، ورنہ پھر اسی انجام کے لیے تیار ہوجاؤ جو یہودی دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ یہی بات متعدد مواقع پر خود نبی ﷺ نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ نبی ﷺ مسلمانوں میں کچھ مال تقسیم کر رہے تھے۔ اس مجلس سے جب لوگ باہر نکلے تو ایک شخص نے کہا " احمد ﷺ نے اس تقویم میں خدا اور آخرت کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا۔ " یہ بات حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے سن لی اور جا کر حضور ﷺ سے عرض کیا کہ آج آپ پر یہ باتیں بنائی گئی ہیں۔ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا رحمۃ اللہ علیٰ موسیٰ فانہ اوذی باکثر من ھٰذا فَصَبَر۔ " اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پر۔ انہیں اس سے زیادہ اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے صبر کیا " (مُسند، احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد)
Top