Tafheem-ul-Quran - Az-Zukhruf : 4
وَ اِنَّهٗ فِیْۤ اُمِّ الْكِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَكِیْمٌؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ فِيْٓ اُمِّ الْكِتٰبِ : ام الکتاب میں ہے لَدَيْنَا : ہمارے پاس لَعَلِيٌّ حَكِيْمٌ : البتہ بلند ہے، حکمت سے لبریز ہے
اور درحقیقت یہ اُمّ الکتاب میں ثبت ہے ،2 ہمارے ہاں بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب۔3
سورة الزُّخْرُف 2 " امّ الکتاب " سے مراد ہے " اصل الکتاب " یعنی وہ کتاب جس سے تمام انبیاء (علیہم السلام) پر نازل ہونے والی کتابیں ماخوذ ہیں۔ اسی کو سورة واقعہ میں کِتَابٌ مَّکْنُوْنٌ (پوشیدہ اور محفوظ کتاب) کہا گیا ہے، اور سورة بروج میں اس کے لیے لوح محفوظ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی ایسی لوح جس کا لکھا مٹ نہیں سکتا اور جو ہر قسم کی در اندازی سے محفوظ ہے۔ قرآن کے متعلق یہ فرما کر کہ یہ " امّ الکتاب " میں ہے ایک اہم حقیقت پر متنبہ فرمایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں اور قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء پر مختلف زبانوں میں کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں، مگر ان سب میں دعوت ایک ہی عقیدے کی طرف دی گئی ہے، حق ایک ہی سچائی کو قرار دیا گیا ہے، خیر و شر کا ایک ہی معیار پیش کیا گیا ہے، اخلاق و تہذیب کے یکساں اصول بیان کیے گئے ہیں اور فی الجملہ ایک ہی دین ہے جسے یہ سب کتابیں لے کر آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے اور صرف عبارتیں مختلف ہیں۔ ایک ہی معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بنیادی کتاب میں ثبت ہیں اور جب کبھی ضرورت پیش آئی ہے، اس نے کسی نبی کو مبعوث کر کے وہ معنی حال اور موقع کی مناسبت سے ایک خاص عبارت اور خاص زبان میں نازل فرما دیے ہیں۔ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کا فیصلہ محمد ﷺ کو عرب کے بجائے کسی اور قوم میں پیدا کرنے کا ہوتا تو یہی قرآن وہ حضور ﷺ پر اسی قوم کی زبان میں نازل کرتا۔ اس میں بات اسی قوم اور ملک کے حالات کے لحاظ سے کی جاتی، عبارتیں کچھ اور ہوتیں، زبان بھی دوسری ہوتی، لیکن بنیادی طور پر تعلیم و ہدایت یہی ہوتی، اور وہ یہی قرآن ہوتا (اگرچہ قرآن عربی نہ ہوتا اسی مضمون کو سورة شعراء میں یوں ادا کیا گیا ہے وَ اِنَّہ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ............ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَّ اِنَّہ لَفِیْ زُبُرِ الْاَوَّلِیْنَ (192۔ 196)۔ " یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ کتاب ہے ............. صاف صاف عربی زبان میں، اور یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ " (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الشعراء، حواشی 119۔ 121) سورة الزُّخْرُف 3 اس فقرے کا تعلق کتاب مبین سے بھی ہے اور امّ الکتاب سے بھی۔ یعنی یہ تعریف قرآن کی بھی ہے اور اس اصل کتاب کی بھی جس سے قرآن منقول یا ماخوذ ہے۔ اس تعریف سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کوئی شخص اپنی نادانی سے اس کتاب کی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے فائدہ نہ اٹھائے تو یہ اسکی اپنی بد قسمتی ہے۔ کوئی اگر اس کی حیثیت کو گرانے کی کوشش کرے اور اس کی باتوں میں کیڑے ڈالے تو یہ اس کی اپنی رذالت ہے۔ کسی کی ناقدری سے یہ بےقدر نہیں ہو سکتی، اور کسی کے خاک ڈالنے سے اس کی حکمت چھپ نہیں سکتی۔ یہ تو بجائے خود ایک بلند مرتبہ کتاب ہے جسے اس کی بےنظیر تعلیم، اس کی معجزانہ بلاغت، اس کی بےعیب حکمت اور اس کے عالی شان مصنف کی شخصیت نے بلند کیا ہے۔ یہ کسی کے گرائے کیسے گر جائے گی۔ آگے چل کر آیت 44 میں قریش کو خاص طور پر اور اہل عرب کو بالعموم یہ بتایا گیا ہے کہ جس کتاب کی تم اس طرح ناقدری کر رہے ہو اس کے نزول نے تم کو ایک بہت بڑے شرف کا موقع عطا کیا ہے جسے اگر تم نے کھو دیا تو خدا کے سامنے تمہیں سخت جوابدہی کرنی ہوگی۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ 39)
Top