Tafheem-ul-Quran - Al-A'raaf : 120
فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهٗ فَاَطَاعُوْهُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ
فَاسْتَخَفَّ : تو ہلکایا پایا اس نے قَوْمَهٗ : اپنی قوم کو فَاَطَاعُوْهُ : تو انہوں نے اطاعت کی اس کی اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : تھے وہ قَوْمًا فٰسِقِيْنَ : فاسق قوم۔ لوگ
اُس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، درحقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ۔50
سورة الزُّخْرُف 50 اس مختصر سے فقرے میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ جب کوئی شخص کسی ملک میں اپنی مطلق العنانی چلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے کھلم کھلا ہر طرح کی چالیں چلتا ہے، ہر فریب اور مکر و دغا سے کام لیتا ہے، کھلے بازار میں ضمیروں کی خریدو فروخت کا کاروبار چلاتا ہے، اور جو بکتے نہیں انہیں بےدریغ کچلتا اور روندتا ہے، تو خواہ زبان سے وہ یہ بات نہ کہے مگر اپنے عمل سے صاف ظاہر کردیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس ملک کے باشندوں کو عقل اور اخلاق اور مردانگی کے لحاظ سے ہلکا سمجھتا ہے، اور اس نے ان کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے کہ میں ان بےوقوف، بےضمیر اور بزدل لوگوں کو جدھر چاہوں ہانک کرلے جاسکتا ہوں۔ پھر جب اس کی یہ تدبیریں کامیاب ہوجاتی ہیں اور ملک کے باشندے اس کے دست بستہ غلام بن جاتے ہیں تو وہ اپنے عمل سے ثابت کردیتے ہیں کہ اس خبیث نے جو کچھ انہیں سمجھا تھا، واقعی وہ وہی کچھ ہیں۔ اور ان کے اس ذلیل حالت میں مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر " فاسق " ہوتے ہیں۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا۔ سچائی اور دیانت اور شرافت قدر کے لائق ہے یا جھوٹ اور بےایمانی اور رذالت۔ ان مسائل کے بجائے ان کے لیے اصل اہمیت صرف اپنے ذاتی مفاد کی ہوتی ہے جس کے لیے وہ ہر ظالم کا ساتھ دینے، ہر جبار کے آگے رہنے، ہر باطل کو قبول کرنے، اور ہر صدائے حق کو دبانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
Top