Tafheem-ul-Quran - At-Tur : 33
اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَهٗ١ۚ بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَۚ
اَمْ يَقُوْلُوْنَ : یا وہ کہتے ہیں تَقَوَّلَهٗ ۚ : اس نے گھڑ لیا اس کو بَلْ لَّا : بلکہ نہیں يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لاتے
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے۔ 26
سورة الطُّوْر 26 دوسرے الفاظ میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قریش کے جو لوگ قرآن کو محمد ﷺ کا اپنا تصنیف کردہ کلام کہتے ہیں خود ان کا دل یہ جانتا ہے کہ یہ آپ کا کلام نہیں ہو سکتا، اور دوسرے وہ لوگ بھی جو اہل زبان ہیں نہ صرف یہ کہ اسے سن کر صاف محسوس کرلیتے ہیں کہ یہ انسانی کلام سے بہت اعلیٰ وارفع ہے بلکہ ان میں سے جو شخص بھی محمد ﷺ سے واقف ہے وہ کبھی یہ گمان نہیں کرسکتا کہ یہ واقعی آپ ہی کا کلام ہے۔ پس صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ قرآن کو آپ کی تصنیف قرار دینے والے دراصل ایمان نہیں لانا چاہتے اسلیے وہ طرح طرح کے جھوٹے بہانے گھڑ رہے ہیں جن میں سے ایک بہانہ یہ بھی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ 21۔ جلد سوم، الفرقان، حاشیہ 12۔ القصص، حاشیہ 64۔ العنکبوت، حاشیہ 88۔ 89۔ جلد چہارم، السجدہ حاشیہ 1 تا 4۔ حٰم السجدہ، حاشیہ۔ 54۔ الاحقاف، حاشیہ 8 تا 10
Top