Ruh-ul-Quran - Al-Ahzaab : 33
اَمْ یَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَهٗ١ۚ بَلْ لَّا یُؤْمِنُوْنَۚ
اَمْ يَقُوْلُوْنَ : یا وہ کہتے ہیں تَقَوَّلَهٗ ۚ : اس نے گھڑ لیا اس کو بَلْ لَّا : بلکہ نہیں يُؤْمِنُوْنَ : وہ ایمان لاتے
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس کو اس نے خود ہی گھڑ لیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے
اَمْ یَقُوْلَوْنَ تَقَوَّلَـہٗ ج بَلْ لاَّیُؤْمِنُوْنَ ۔ فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِـہٖٓ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ ۔ (الطور : 33، 34) (کیا یہ کہتے ہیں کہ اس کو اس نے خود ہی گھڑ لیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے۔ پس یہ اسی شان کا ایک کلام بنا لائیں اگر یہ اپنے قول میں سچے ہیں۔ ) قرآن کے حوالے سے آپ ﷺ پر ایک اور اعتراض اور اس کا جواب قریش کے ایک اور الزام کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ نبی کریم ﷺ پر لگاتے تھے اور اس کا جواب دیا گیا ہے۔ الزام یہ ہے کہ اس قرآن کریم کو آپ نے خود گھڑ لیا ہے۔ تَقَوَّلَ کا معنی ہوتا ہے کسی بات کو خود گھڑ کر دوسرے پر اس کا الزام لگانا۔ اسی بات کو قرآن کریم نے افترا کے لفظ بھی ادا کیا ہے۔ یعنی نبی کریم ﷺ جو کلام اللہ تعالیٰ کی کتاب کہہ کر پیش کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ نہیں بلکہ و ان کا اپنا طبع زاد ہے جسے وہ خود اپنی محنت اور ذہانت سے بناتے ہیں۔ لیکن لوگوں پر رعب اور دھونس جمانے کے لیے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردیتے ہیں اس کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ مخالفین بھی جانتے ہیں کہ اس الزام کی حقیقت کیا ہے کیونکہ قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کے اپنے ارشادات کی زبان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ لیکن وہ اس طرح الزامات لگا کر درحقیقت قرآن کریم کی اثرآفرینی اور اس کے بینظیر ہونے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ ساری حرکتیں اصل میں جس مقصد کی غماز ہیں وہ یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لانا چاہتے۔ یہاں فعل ارادہ فعل کے معنی میں معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ دوسری آیت میں ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اس طرح کے الزام لگانے سے تمہارے عزائم کچھ بھی ہوں لیکن اگر تم ان میں سنجیدہ ہو تو پھر تمہارے لیے ضروری ہے کہ اس قرآن جیسی یعنی اس شان اور مرتبے کی کتاب تیار کرکے پیش کرو۔ تمہارے پاس تمہارے اپنے خطیبوں اور شاعروں کا ادبی سرمایہ ہوگا۔ ان کے پرانے ذخائر میں سے اس پایہ کی کوئی چیز تلاش کرکے پیش کرو۔ اور یا خود سر جوڑ کر بیٹھو اور کوئی ایسی چیز تیار کرکے لائو جسے تمہارے اپنے ملک کے کلام کے تیورشناس اور ادب کے ماہرین تسلیم کریں کہ یہ واقعی ویسی ہی چیز ہے جیسا قرآن کریم ہے۔ تو پھر یہ بات سمجھ لی جائے گی کہ تم واقعی اپنی بات میں سچے ہو۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو پھر یہ بات کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ تمہارا ارادہ اس طرح کی باتوں سے صرف یہ ہے کہ تم آنحضرت ﷺ کی دعوت پر ایمان نہیں لانا چاہتے۔ قرآن کریم نے اس طرح کا چیلنج مختلف وقتوں میں قریش کو اور آنے والی دنیا کو بھی دیا ہے۔ لیکن آج تک کوئی اس چیلنج کو قبول نہ کرسکا۔ اس کی وجہ کیا ہے اور قرآن کریم میں اعجاز کی ایسی آخر کیا باتیں ہیں جس نے ساری نوع انسانی کو اس کے مقابلے سے عاجز کر رکھا ہے۔ ہم اس سلسلے میں سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع میں اپنی گزارشات پیش کرچکے ہیں اسے ملاحظہ کرلیا جائے۔
Top