Tafheem-ul-Quran - At-Tur : 32
اَمْ تَاْمُرُهُمْ اَحْلَامُهُمْ بِهٰذَاۤ اَمْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَۚ
اَمْ تَاْمُرُهُمْ : یا حکم دیتی ہیں ان کو اَحْلَامُهُمْ : ان کی عقلیں بِھٰذَآ : اس کا اَمْ هُمْ : یا وہ قَوْمٌ طَاغُوْنَ : لوگ ہیں سرکش
کیا ان کی عقلیں انہیں ایسی ہی  باتیں کرنے کے لیے کہتی ہیں؟ یا درحقیقت یہ عناد میں حد سے گزرے ہوئے لوگ ہیں؟ 25
سورة الطُّوْر 25 ان دو فقروں میں مخالفین کے سارے پروپیگنڈے کی ہوا نکال کر انہیں بالکل بےنقاب کردیا گیا ہے۔ استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قریش کے سردار اور مشائخ بڑے عقلمند بنے پھرتے ہیں، مگر کیا ان کی عقل یہی کہتی ہے کہ جو شخص شاعر نہیں ہے اسے شاعر کہو، جسے ساری قوم ایک دانا آدمی کی حیثیت سے جانتی ہے اسے مجنون کہو، اور جس شخص کا کہانت سے کوئی دور دراز کا تعلق بھی نہیں ہے اسے خواہ مخواہ کاہن قرار دو۔ پھر اگر عقل کی بنا پر یہ لوگ حکم لگاتے تو کوئی ایک حکم لگاتے۔ بہت سے متضاد حکم تو ایک ساتھ نہیں لگا سکتے تھے۔ ایک شخص آخر بیک وقت شاعر ہے تو کاہن نہیں ہو سکتا، کیونکہ شعر کی زبان اور اس کے موضوعات بحث الگ ہوتے ہیں اور کہانت کی زبان اور اس کے مضامین الگ۔ ایک ہی کلام کو بیک وقت شعر بھی کہنا اور کہانت بھی قرار دینا کسی ایسے آدمی کا کام نہیں ہوسکتا جو شعر اور کہانت کا فرق جانتا ہو۔ پس یہ بالکل کھلی ہوئی بات ہے کہ محمد ﷺ کی مخالفت میں یہ متضاد باتیں عقل سے نہیں بلکہ سراسر ضد اور ہٹ دھرمی سے کی جا رہی ہیں، اور قوم کے یہ بڑے بڑے سردار عناد کے جوش میں اندھے ہو کر محض بےسرو پا الزامات لگا رہے ہیں نہیں کوئی سنجیدہ انسان قابل اعتنا نہیں سمجھ سکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حاشیہ 104، یونس، حاشیہ 3۔ بنی اسرائیل، حواشی 53۔ 54۔ جلد سوم، الشعراء، حواشی 130، 131، 140، 142، 143۔ 144۔)
Top