Ruh-ul-Quran - Yaseen : 79
قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْۤ اَنْشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُۙ
قُلْ : فرما دیں يُحْيِيْهَا : اسے زندہ کرے گا الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْشَاَهَآ : اسے پیدا کیا اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ : پہلی بار وَهُوَ : اور وہ بِكُلِّ : ہر طرح خَلْقٍ : پیدا کرنا عَلِيْمُۨ : جاننے والا
اے پیغمبر ! کہہ دیجیے ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کو جاننے والا ہے
قُلْ یُحْیِیْھَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَھَـآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ط وَھُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُ نِ ۔ (یٰسٓ: 79) (اے پیغمبر کہہ دیجیے ان کو وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کو جاننے والا ہے۔ ) مخالفین کے اعتراض کا جواب آخرت میں ازسرنو زندگی پر کفار کا اعتراض دو وجہ سے تھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ ہزاروں سال میں فنا کے گھاٹ اتر جانے والی مخلوق جن کا ریشہ ریشہ اور ذرہ ذرہ ہوا میں اڑ چکا ہے اور جن کے جسم کا کوئی حصہ محفوظ نہیں، آخر انہیں دوبارہ زندہ کیسے کیا جائے گا ؟ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ کوئی شخص کہاں مرا، کہاں اس کی قبر بنی اور اس کی لاش مٹی ہو کر کہاں کہاں پھیل گئی اور مٹی کے ذرات اڑ کر کہاں کہاں پہنچے ؟ اس پوری تفصیل کو ایک فرد کے حوالے سے آخر کون جان سکتا ہے اور مزید کہ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ کہی جاتی ہے کہ ہر شخص کا نامہ ٔ عمل اس کے ہاتھوں میں دیا جائے گا گویا ان کی زندگی بھر کے اعمال کا ریکارڈ محفوظ ہوگا جو اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے گا۔ اندازہ کیجیے کیا ایسی بات کو عقل تسلیم کرسکتی ہے۔ قرآن کریم نے ان دونوں باتوں کا اس آیت کریمہ میں جواب دیا۔ پہلی بات کے جواب میں فرمایا کہ تمہیں انسانوں کے ازسرنو پیدا ہونے یعنی دوبارہ اٹھائے جانے پر اعتراض ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس ذات بابرکات نے پہلی دفعہ انسانوں اور دیگر مخلوقات کو پیدا کیا تو یہ تخلیق کا عمل اگر ہم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتے تو یقینا کوئی بھی ہزاروں سال میں پیدا ہونے والی مخلوقات کے بارے میں یقین نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی ذات اتنا بڑا کام بھی انجام دے سکتی ہے۔ لیکن اب جبکہ کائنات اپنی وسعتوں سمیت ہمارے سامنے ہے اور انسانی زندگی کے مظاہر بھی ہمارے سامنے ہیں تو ہمیں اس کے تسلیم کرنے میں کوئی تأمل نہیں۔ لیکن یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے تخلیقی عمل پر تو کسی شبے کا اظہار نہیں کرتے لیکن اسی تخلیقی قوت سے دوبارہ کام لینے پر ہمیں عقلی استبعاد آپکڑتا ہے۔ آخر یہ کیسی منطق ہے کہ جو کام پروردگارِعالم ایک دفعہ کرچکے ہیں اور ہزاروں سال سے وہ کام جاری ہے آخر اسے دوبارہ کیوں نہیں کرسکتے۔ دوسری بات کا جواب یہ دیا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت بےپناہ ہے اسی طرح اس کا علم بھی حدود سے ماورا ہے۔ نہ اس کی تخلیقی قوت کے سامنے کوئی رکاوٹ حائل ہوسکتی ہے اور نہ اس کے علم کے لیے کوئی چیز روک بن سکتی ہے۔ جس طرح وہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی طرح وہ ہر چیز کو جاننے والا بھی ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ انسانی وجود کے ذرات کہاں کہاں بکھرے ہوئے ہیں۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ زمین کیا کمی کرتی رہی ہے اور کیا اضافہ کرتی رہی ہے۔ جن چیزوں کی حفاظت بلکہ تصور بھی انسانی علم کے لیے ناممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کے علمی کمال کے سامنے بہت معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ سورة ق میں ارشاد فرمایا گیا ہے : قَدْعَلِمْنَا مَاتَنْقُصُ الْاَرْضُ مِنْھُمْ وَعِنْدَنَا کِتٰبٌ حَفِیْظٌ ” زمین ان کے اندر سے جو کچھ کم کرتی ہے ہم اس کو جانتے ہیں اور ہمارے پاس سارا ریکارڈ رکھنے والی ایک کتاب ہے۔ “ اسی طرح پروردگار عالم یہ بھی جانتے ہیں کہ انسان نے کیا کارنامے انجام دیے ہیں، کن اعمال کا ارتکاب کیا ہے، کہاں کہاں اس کی آمدورفت رہی ہے، کس کس سے تعلق رہا ہے اور کہاں کہاں اس کے معاملات کی دنیا پھیلی ہوئی ہے ؟ کیونکہ وہ ہر مخلوق کو جاننے والا ہے اور انسانوں کے اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے باہر نہیں۔
Top