Tafseer-e-Majidi - Yaseen : 79
قُلْ یُحْیِیْهَا الَّذِیْۤ اَنْشَاَهَاۤ اَوَّلَ مَرَّةٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُۙ
قُلْ : فرما دیں يُحْيِيْهَا : اسے زندہ کرے گا الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَنْشَاَهَآ : اسے پیدا کیا اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ : پہلی بار وَهُوَ : اور وہ بِكُلِّ : ہر طرح خَلْقٍ : پیدا کرنا عَلِيْمُۨ : جاننے والا
آپ کہہ دیجیے انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں اول بار پیدا کیا تھا اور وہی سب طرح کا پیدا کرنا خوب جانتا ہے،53۔
53۔ سو جوا ابداء پر قدرت رکھتا ہے، اس کیلئے اعادہ کیا دشوار ہے، بلکہ جو ابداء پر قادر ہے اسے تو قیاس انسانی کے مطابق اعادہ پر اور زیادہ قادر ہونا چاہیے۔ فیہ من اوضح الدلیل علی ان من قدرعلی الابتداء کان اقدر علی الاعادۃ (جصاص) فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ آیت سے قیاس منطقی وفقہی کی حجیت ثابت ہوئی ہے۔ وفیہ الادلالۃ علی وجوب القیاس والاعتبار لانہ الزمھم قیاس النشأۃ الثانیۃ علی الاولی (جصاص) ففی ھذا دلیل علی صحۃ القیاس لان اللہ عزوجل احتج علی منکر البعث بالنشأۃ الاولی (قرطبی) (آیت) ” قال ..... رمیم “۔ ” روشن خیال “۔ منکرین بعث کا بیان ہورہا ہے، جن کی کمی کسی زمانہ بھی بھی نہیں رہی ہے۔ وہی گستاخانہ اور تمردانہ لہجہ میں یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ ہڈیاں جب سڑ گل گئیں تو ان کی حیات ثانی ممکن کیونکر ہے ؟ (آیت) ” من یحی العظام۔ یحیھا “۔ عظام کے ساتھ، احیاء کے اس اتصاف سے بعض فقہاء نے استدلال ہڈی کے ذی حیات یا جاندار ہونے پر کیا ہے لیکن محققین نے کہا ہے کہ یہ احیاء تو اسی مجازی معنی میں ہے، جس معنی میں ارض، (زمین) کیلئے آیا کرتا ہے۔ احتج بعضھم علی ان العظم فیہ حیاۃ فیجعلہ حکم الموت بموت الاصل ویکون میتۃ ولیس کذلک لانہ انما سماہ حیا مجازا (جصاص) والمراد باحیاء العظم ردھا الی ما کانت علیہ غضۃ رطبۃ فی بدن حی حساس (مدارک) لیکن اگر ہڈی میں حیات کا وجود اس کے مناسب حال تسلیم کرلیاجائے، جب بھی کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا۔ ہڈی فقہاء اہل سنت میں نجس نہیں۔ طاہر ہے۔ وھی عندنا طاھرۃ (مدارک) (آیت) ” انشاھا اول مرۃ “۔ یعنی ایسی حالت میں انہیں پیدا کردیا جب کہ وہ حیات سے بالکل بیگانہ وبعید تھیں۔
Top