Tafseer-al-Kitaab - An-Nahl : 61
وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُؤَاخِذُ : گرفت کرے اللّٰهُ : اللہ النَّاسَ : لوگ بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے سبب مَّا تَرَكَ : نہ چھوڑے وہ عَلَيْهَا : اس (زمین) پر مِنْ : کوئی دَآبَّةٍ : چلنے والا وَّلٰكِنْ : اور لیکن يُّؤَخِّرُهُمْ : وہ ڈھیل دیتا ہے انہیں اِلٰٓى : تک اَجَلٍ مُّسَمًّى : ایک مدت مقررہ فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آگیا اَجَلُهُمْ : ان کا وقت لَا يَسْتَاْخِرُوْنَ : نہ پیچھے ہٹیں گے سَاعَةً : ایک گھڑی وَّ : اور لَا يَسْتَقْدِمُوْنَ : نہ آگے بڑھیں گے
اور اگر (ایسا ہوتا کہ) اللہ لوگوں کو ان کے ظلم پر (فوراً ) پکڑ لیا کرتا تو زمین پر کوئی حرکت کرنے والا جاندار نہ چھوڑتا۔ لیکن وہ وقت مقرر تک انھیں مہلت دیتا ہے۔ پھر جب ان کا (وہ) وقت آ پہنچتا ہے تو (اس سے) ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
[33] یعنی بدکار تو بہرحال بدی کی پاداش میں ہلاک کر ہی دیئے جاتے اور جب وہ باقی ہی نہ رہ جاتے تو نیکوکاروں کا وجود بھی بےمعنی رہ جاتا کیونکہ اگر دنیا میں ظلم اور ظالم کا وجود باقی نہ رہے تو کوئی انصاف کس کے مقابلے میں کرے گا ؟ دنیا میں کوئی مفلس باقی نہ رہے تو صفت فیاضی کے ظہور کی کیا صورت باقی رہے گی ؟ مصیبت زدوں کے وجود سے دنیا خالی ہوجائے تو کوئی ہمدردی اور شفقت کے لئے کس کو تلاش کرے گا ؟ غرض انسانی آبادی تو ساری کی ساری یوں ختم ہوجاتی اور جب کوئی انسان زندہ نہ رہتا تو پھر حیوانات کی ضرورت بھی باقی نہ رہ جاتی جو تمام تر انسان ہی کی خدمت کے لئے ہیں۔ [34] یعنی اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ان کی سرکشیوں اور بداعمالیوں پر فوراً پکڑلے اور عذاب نازل کردے بلکہ وہ ان کو پکڑنے سے پہلے سنبھلنے کا کافی موقع دیتا ہے اور اپنے رسولوں کے ذریعے تنبیہات بھیجتا ہے اور ان کی رسی ڈھیلی چھوڑے رکھتا ہے۔ یہ قانون امہال یعنی مہلت عمل کا قانون اچھائی اور برائی دونوں کے لئے ہے۔ اچھائی کے لئے اس لئے تاکہ وہ اور زیادہ نشوونما پائے۔ برائی کے لئے اس لئے کہ آدمی متنبہ اور خبردار ہو کر اصلاح و تلافی کا سامان کرے۔
Top