Madarik-ut-Tanzil - Al-Ankaboot : 126
وَ مَا تَنْقِمُ مِنَّاۤ اِلَّاۤ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآءَتْنَا١ؕ رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ۠   ۧ
وَمَا : اور نہیں تَنْقِمُ : تجھ کو دشمنی مِنَّآ : ہم سے اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّنَا : اپنا رب لَمَّا : جب جَآءَتْنَا : وہ ہمارے پاس آئیں رَبَّنَآ : ہمارا رب اَفْرِغْ : دہانے کھول دے عَلَيْنَا : ہم پر صَبْرًا : صبر وَّ تَوَفَّنَا : اور ہمیں موت دے مُسْلِمِيْنَ : مسلمان (جمع)
اور اس کے سوا تم کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے پاس آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے ؟ اے پروردگار ! ہم پر صبر و استقامت کے دہانے کھول دے اور ہمیں (ماریو تو) مسلمان ہی ماریو
جو تیرے ہاں عیب ہے وہ ہمارے ہاں حسن ہے : آیت 126: وَمَاتَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ ٰامَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَآ ئَ تْنَا (اور تو نے ہم میں کونسا عیب دیکھا ہے سوائے اس کے کہ ہم اپنے رب کے احکام پر ایمان لے آئے) تو ہمارا یہی عیب نکالتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان لے آئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جو تیری نگاہ میں سب سے بڑا عیب ہے وہ اصل میں سب سے بڑی فخر اور منقبت کی بات ہے اور وہ ایمان ہے شاعر نے یہی بات کہی۔ ولا عیب فیہم غیر ان سیوفھم، بہن فلولٌ من قراع الکتائب ٗ ( رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا (اے ہمارے رب ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما) یعنی زور سے ہم پر ڈال دے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمیں وسیع صبر عنایت فرما یہاں تک کہ وہ ہم پر بہنے لگے اور ہمیں ڈھانپ لے جیسا کہ پانی ڈھانپ لیتا ہے۔ وَّتَوَ فَّنَا مُسْلِمیْنَ (اور ہمیں اس حال میں موت دے کہ ہم اسلام پر ہوں) اسلام پر ثابت قدم رہنے والے۔
Top