Tafseer-e-Saadi - Ibrahim : 2
اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيَةُ : بدکار عورت وَالزَّانِيْ : اور بدکار مرد فَاجْلِدُوْا : تو تم کوڑے مارو كُلَّ وَاحِدٍ : ہر ایک کو مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے مِائَةَ جَلْدَةٍ : سو کوڑے وَّلَا تَاْخُذْكُمْ : اور نہ پکڑو (نہ کھاؤ) بِهِمَا : ان پر رَاْفَةٌ : مہربانی (ترس) فِيْ : میں دِيْنِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَلْيَشْهَدْ : اور چاہیے کہ موجود ہو عَذَابَهُمَا : ان کی سزا طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنَ : سے۔ کی الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مسلمان
بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب ان کی بدکاری ثابت ہوجائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو اور اگر تم خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو شرع خدا (کے حکم) میں تمہیں ہرگز ترس نہ آئے اور چاہیے کہ انکی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو
(آیت نمبر (2 آیت میں مذکوریہ حکم غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لیے ہے کہ ان کو سو سو کوڑے مارے جائیں۔ البتہ شادی شدہ زنا کار ہو تو سنت صحیحہ مشہورہ دلالت کرتی ہے کہ اس کی حد رجم (یعنی سنگسار کرنا) ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات سے منع کیا ہے کہ زنا کار مردوزن پر حد جاری کرتے وقت ہم میں رحم و شفقت کا ایسا جذبہ پیدا ہو جو ہمیں ان پر حد قائم کرنے سے روک دے۔ خواہ یہ رحم طبعی ہو یا قرابت یا دوستی وغیرہ کی وجہ سے ہو۔ ایمان اس رحم کی نفی کا موجب ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو قائم کرنے سے مانع ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی حقیقی رحمت تو زانی پر حد نافز کرنے میں ہے۔ اگر زانی پر تقدیر کا فیصلہ جاری ہونے پر ہمیں رحم آئے تو یہ اور بات ہے مگر نفاذ حد کے پہلو سے ہمیں اس پر رحم نہیں آنا چاہیے ‘ نیز اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ زنا کاروں پر حد جاری کرتے وقت اہل ایمان کی ایک جماعت موجود ہو تاکہ حد کا نفاذ مشتہر ہو ‘ مجرموں کی رسوائی ہو ‘ مجرم اس گھناؤنے جرم سے باز رہیں اور لوگ بالفعل نفاذ حد کا مشاہدہ کریں ‘ کیونکہ شریعت کے احکام کے بالفعل مشاہدے سے شریعت کا علم زیادہ پختہ اور اس کا فہم راسخ ہوجاتا ہے اور مشادہ کرنے والا منزل صواب کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس اس میں کوئی اضافہ کیا جاتا ہے نہ کمی واللہ اعلم۔
Top